اسلام آباد( تنویر ہاشمی ) ملک میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ٹیکس مہر کے بغیر 165برانڈز کے سگریٹ فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے، سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری سے سالانہ تین سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے، رواں مالی سال کے اختتام تک غیر قانونی سگریٹ کی تجارت کا حجم 56فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے ، عالمی ادارے اپسوس پاکستان نے سروے رپورٹ جاری کر دی۔
رپورٹ کے مطابق سگریٹ کے 104برانڈز حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم قیمت سے بھی کم پر فروخت ہورہے ہیں ، ڈیوٹی پیڈ سگریٹ کے حجم کی شرح 46 فیصد اور غیر قانونی سگریٹ کی شرح54فیصد ہے۔
گزشتہ دو برسوں میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت میں 8فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایاگیا کہ پاکستان میں سگریٹ نوشی کرنیوالے افراد کی شرح میں کمی ہوئی یا اضافہ ہوا۔
سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں65روپے سے220روپے فی پیکٹ کے درمیان فروخت ہونے والے سگریٹوں کا حجم 95فیصد ہےصارفین تیزی سے ڈیوٹی ادا شدہ سگریٹوں سے غیر ڈیوٹی ادا شدہ سمگل سگریٹ برانڈ پرمنتقل ہو رہے ہیں،اس وقت 104سگریٹ برانڈز حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم قیمت سے بھی کم پر مارکیٹوں میں دستیاب ہیں جبکہ45سمگل شدہ سگریٹ برانڈز ایسے ہیں جو اس مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت ہو رہے ہیں۔
ملک بھر میں مقررہ قیمتوں سے کم پر فروخت ہونے والے سگریٹ برانڈز کا مجموعی حجم 53فیصد بنتا ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والے متعدد برانڈز جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا ایسے25اور30سگریٹوں کی پیکنگ میں بھی با آسانی دستیاب ہیں۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو مستقبل میں بھی مقامی غیر ٹیکس ادا شدہ سگریٹ تیار کنندگان اور سمگلروں کا مارکیٹوں پر قبضہ برقرار رہے گا جبکہ ایسی سگریٹ ساز کمپنیاں جو باقاعدگی سے ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کرتی ہیں،انکے مارکیٹ شئیر میں مزید کمی واقع ہو گی اور یہ شئیر غیر قانونی سگریٹ سیکٹر کو منتقل ہو جائے گا۔
اپسوس کے سی ای او عبدالستار بابر نے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ ایف بی آر اپنے قوانین پر عملدرآمد کرانے میں مکمل ناکام ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، تاجر دوست سکیم میں صرف75افراد نے رجسٹریشن کرائی۔
رپورٹ میں اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ ملک میں سگریٹ نوشی کی شرح میں اضافہ یا کمی ہوئی ، تاہم اندازہ ہےکہ ملک میں سگریٹ نوشی کرنیوالے افراد کی کوئی کمی نہیں ہوئی ۔