اسلام آباد (انصار عباسی) 9 مئی کے حملوں سے متعلق نگراں حکومت کی رپورٹ میں عمران خان اور دیگر کیخلاف عائد کردہ اپنے الزامات کے حوالے سے شواہد پیش نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے کئی دیگر رہنماؤں پر 9؍ مئی کے حملوں کی بھرپور پلاننگ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں نہ تفصیلات بتائی گئی ہیں کہ عمران خان اور دیگر نے 9 مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی کیسے، کب اور کہاں کی۔
9؍ مئی کی رپورٹ تیار کرنے والی کابینہ کمیٹی میں شامل ایک ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ تمام مطلوبہ شواہد متعلقہ حکام بشمول وزارت داخلہ، دفاع اور قانون کے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چاہے تو شواہد منظر عام پر لا سکتی ہے۔
رپورٹ کے نتائج اور اس کا نتیجہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کی جانب سے کمیٹی کو دکھائے گئے شواہد کی بنیاد پر اخذ کیا گیا۔ کابینہ کمیٹی نے 9 مئی کے تشدد میں مبینہ کردار کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنماؤں یا رپورٹ میں آنے والے افراد کا انٹرویو نہیں کیا۔
رپورٹ میں خود کہا گیا ہے کہ ’’کابینہ ڈویژن کے مشورے پر کابینہ یا اس کی کمیٹیوں کے پاس رولز آف بزنس 1973ء کے تحت انکوائری یا تحقیقات کے کوئی باضابطہ اختیارات نہیں۔ کابینہ اور اس کی کمیٹیوں کے غور و خوض کا انحصار مکمل طور پر متعلقہ ڈویژنوں اور محکموں کی جانب سے انہیں فراہم کردہ معلومات پر ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق، ’’کمیٹی نے متعلقہ ڈویژنوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر غور کیا۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ اور دفاع سے تفصیلی بریفنگ اور رائے بھی طلب کی۔ وزارت داخلہ نے صوبائی پولیس محکموں اور انٹیلی جنس بیورو سے بھی معلومات حاصل کیں، جمع کیں اور پیش کیں۔ اسی طرح، وزارت دفاع نے اپنے دائرہ کار میں ایجنسیوں کے ذریعے اسے دستیاب معلومات فراہم کیں۔
کمیٹی کو فراہم کردہ ڈیٹا کا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ متعلقہ ڈویژنوں کے نمائندوں سے سوالات کیے گئے تاکہ کمیٹی کو حقائق اور حالات کا بہتر اندازہ ہو سکے۔ یہ رپورٹ داخلہ اور دفاع کی وزارتوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات، دستاویزات اور مواد پر مبنی ہے۔‘‘
اگرچہ کمیٹی نے 9؍ مئی سے حکام جو الزامات عمران خان اور دیگر کیخلاف عائد کر رہے ہیں؛ کمیٹی نے ان تمام الزامات کو باضابطہ طور پر اپنی رپورٹ میں شامل کیا ہے۔ لیکن اس کی رپورٹ نے ملزمان کیخلاف شواہد کی نوعیت کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
مثلاً، رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’کمیٹی کو دکھائے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی کے کئی رہنما اس منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ اس سے مزید پتہ چلتا ہے کہ عمران خان نے منصوبہ بندی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‘‘ رپورٹ میں ان الزامات کی تصدیق کیلئے کوئی تفصیلات موجود نہیں۔
9 مئی کے واقعے کے بعد سے، سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور عمران خان کے فوجی تنصیبات پر حملوں کے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ اور ’’منصوبہ ساز‘‘ ہونے کے ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ تاہم ایسا کوئی ثبوت تاحال میڈیا کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے نہ اسے عام کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں حکام کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’’34؍ افراد ایسے تھے جنہوں نے پرتشدد اسٹریٹ پاور کی حکمت عملی مرتب کی، تشدد اور تباہی کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔
مزید برآں، 52 افراد نے مفصل منصوبہ بندی کی 185 افراد نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔‘‘ رپورٹ میں ان افراد کے نام اور تفصیلات بتائی گئی ہیں کہ انہوں نے 9؍ مئی کی منصوبہ بندی کیسے اور کہاں کی تھی اور نہ ان کیخلاف شواہد پیش کیے گئے ہیں۔
تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ان افراد کیخلاف متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور ان کیخلاف الزامات کے مجاز دائرہ اختیار کی مختلف عدالتوں میں کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘