• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرڈیننس لانا ہے تو پارلیمنٹ بند کردیں، ایسا کرنا جمہوریت کیخلاف نہیں؟ چیف جسٹس

اسلام آباد (ایجنسیاں)سپریم کورٹ کا سینیٹر فیصل واڈا کی گزشتہ روز کی گئی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس‘چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ (آج) جمعہ کو سماعت کریگاجبکہ عدالت عظمیٰ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں‘آرڈینس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں‘کیا آرڈینس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہیے؟جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ پگڑیوں کو فٹبال بنانے کاکہہ کر کیا پراکیسز کے ذریعے ہمیں دھمکایاجارہاہے ‘کہہ رہے ہیں ججز کی پگڑیاں اچھا ل دیں گے‘ججزنہ اس دھمکی میں آئیں گے اورنہ اثرورسوخ کو مانیں گے‘

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے اڈیالہ جیل سےپیش ہوئے تاہم تین گھنٹے کی سماعت کے دوران انہیں ایک لفظ بھی بولنے کا موقع نہیں ملا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے عمران خان کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے جمعرات کو سماعت کی۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ جولائی 2022 کو نیب ترامیم کے خلاف پہلی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53سماعتوں تک چلایا گیا۔دوران سماعت عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلا لیا اور اپنے چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی، شکایت کرنے پر اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔ 

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا‘چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دیدیں، اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کریگا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی کارروائی کو معطل کرنا نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کر کے بینچ اس کیخلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟اس موقع پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا۔

اہم خبریں سے مزید