• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مزے مزے کے مسالے دار کھانے انسان کی کمزوری رہے ہیں۔ آخر کون ایسا شخص ہوگا جو کھانوں میں ذائقے کی تلاش میں نہ رہتا ہو۔ نئے ذائقوں کی تلاش کی جستجو کے نتیجے میں انسان خوراک کے ساتھ مختلف تجربات بھی کرتا رہتا ہے اور یہ ناقابل یقین حد تک ایک تخلیقی عمل ہے۔ لیکن جو کھانے ہم کھاتے ہیں اور وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتے ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے، خاص طور پر جب بات الٹرا پراسیسڈ کھانوں کی ہو۔

’الٹرا پراسیسڈ‘غذائیں

ہم روزمرہ میں مختلف طرح کے پراسیسڈ کھانے کھاتے ہیں۔ پکلنگ، کیننگ، پیسچورائزنگ، فرمنٹنگ، ری کونسٹیٹیوٹنگ ۔ یہ سب فوڈ پراسیسنگ کی شکلیں ہیں، اور حتمی نتائج اکثر کافی مزیدار ہوتے ہیں۔ ایک خصوصیت جو ’الٹرا پراسیسڈ‘ فوڈز (یوپی ایف) کو منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انھیں پہچان سے کہیں زیادہ اور کیمیائی طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس میں ایسے مختلف طریقے اور اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جو ہم گھر پر کھانا پکاتے وقت عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔

چند برس قبل ڈاکٹر کرس وان ٹولکین نے غیرملکی نشریاتی ادارے کے لیے ایک تجربہ کیا تھا جس میں انھوں نے ایک ماہ تک ’الٹرا پراسیسڈ کھانا کھایا۔ اسپوئلر الرٹ: یہ کوئی اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوا۔ یہ تجربہ دستاویزی فلم ’ہم اپنے بچوں کو کیا کھلا رہے ہیں؟‘ کا حصہ تھا۔ اس تجربے کے دوران ڈاکٹر ٹولکین نے ایک ایسی غذا کھائی جس میں انھیں 80 فیصد کیلوریز الٹرا پراسیسڈ کھانوں سے حاصل ہوئیں۔ یہ وہ تناسب ہے جو تیزی سے زیادہ آمدنی والے ممالک جیسے برطانیہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، اور امریکا میں عام ہو رہا ہے۔

پراسیسڈ غذائیں اور انسانی جسم

مہینے کے اختتام پر ڈاکٹر ٹولکین نے کم نیند، سینے اور معدے میں جلن، سستی، قبض، پائلز اور وزن میں سات کلو اضافے کی اطلاع دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے خود کو دس سال بوڑھا محسوس کیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ یہ سب کچھ کھانوں کی وجہ سے ہے، اور یہ احساس اس وقت تک نہیں ہوا جب تک ’میں نے وہ کھانا کھانا چھوڑ نہیں دیا۔‘ ڈاکٹر ٹولکین کے تجربے کے ساتھ ساتھ کی گئی ایک اور تحقیق میں اس کی کچھ سائنسی وجوہات بتائی گئی ہیں۔

اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مقابلے میں جو کم یوپی ایف غذا کھاتے ہیں، الٹرا پراسیسڈ غذا کھانے والے افراد نے روزانہ 500 سے زیادہ کیلوریز کھائیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بھوک کے لیے ذمہ دار ہارمونز میں اضافہ ہوا اور اس ہارمون میں کمی ہوئی جس سے ہمیں پیٹ بھرنے یا سیری کا احساس ہوتا ہے، جس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے کیوں زیادہ کھانا کھایا اور وزن بڑھا لیا۔ لیکن وزن میں اضافہ زیادہ یو پی ایف والی غذا سے وابستہ مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ کئی دیگر مطالعات میں دیکھا گیا ہے کہ یو پی ایف غذا کے طویل عرصے تک کھانے اور دل کی بیماری، موٹاپا، ذیابطیس کی دونوں اقسام، کچھ طرح کے کینسروں اور حتیٰ کہ ڈپریشن میں بھی ایک طرح کا تعلق ہے۔

مطالعہ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ یو پی ایف کا ہمارے کھانے پر بھی اثر پڑا ہے۔ یو پی ایف سے بھرپور غذا کھانے والے افراد نے ان افراد کی نسبت بہت تیزی سے کھانا کھایا جن کی غذا میں بہت کم پراسیسڈ فوڈ شامل تھا۔ ماضی میں کی گئی ایک اور تحقیق میں آہستہ کھانے والوں کو زیادہ بھرا ہوا اور پرسکون دیکھا گیا۔ لیکن ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ الٹرا پراسیسڈ کھانا ’وہ آسانی سے چبا اور نگل رہے تھے۔‘

فوڈ اور نیوٹریشن کی سائنسدان ڈاکٹر ایما بیکٹ یہ سمجھ سکتی ہیں۔ ’الٹرا پراسیسڈ کھانے ذائقہ دار ہوتے ہیں۔‘ بطور ماہرِ غذائیات ان کے پاس بہت سی آسان وضاحت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ چربی اور کاربوہائیڈریٹ یا نشاستہ دار غذا سے ہماری محبت ’ارتقاء کا خمار‘ ہے۔ ’جب ’نیچرل‘ سیلیکشن نے ہماری ذائقہ کی حس کا انتخاب کیا تو اس وقت توانائی اور نمک کے ذرائع بہت کم تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ، ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ’میٹھا اور عمامی (نمک کی طرح کا ذائقہ) بالواسطہ توانائی کے ذرائع، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی طرف بالترتیب اشارہ تھا۔ نمک سے بھوک لگنے کا امکان ہوتا ہو گا کیونکہ یہ تھوڑی مقدار میں ضروری تو ہے لیکن تاریخی اعتبار سے آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔‘

لیکن ایک عنصر جو شاید ارتقاء سے کم اہم تو نہیں، وہ پیداواری عمل ہے جو ان الٹرا پراسیسڈ کھانوں کے پیچھے ہے۔ ڈاکٹر بیکٹ بتاتی ہیں کہ، ’یہ مصنوعات اکثر ہمارے ’بلِس پوائنٹس‘ (لطف اٹھانے والی حس) کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ نمک، چربی اور/یا چینی کی کامل سطح اور سیری کے لیے مخصوص حِس کے پوائنٹ کے ذرا قریب وہ نقطہ ہے جہاں آپ کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں، اور آپ مزید کچھ اور نہیں چاہتے۔‘ دوسرے لفظوں میں الٹرا پراسیسڈ کھانے ہمارے دماغوں سے اُلجھ رہے ہیں۔

الٹراپراسیسڈ غذاؤں کا دماغ پر اثر

ڈاکٹر ٹولکین اعتراف کرتے ہیں کہ ’الٹرا پراسیسڈ غذا کھانا ایک ایسی چیز بن گیا ہے جس کے متعلق میرا دماغ صرف مجھے بتاتا ہے، چاہے مجھے اس کی ضرورت نہ بھی ہو۔ درحقیقت ان کی دماغی سرگرمی کے اسکینز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انعام کے لیے ذمہ دار دماغ کے حصے ان حصوں سے مل گئے ہیں جو بار بار کام کرنے والے خود کار رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کے دماغ کو الٹرا پراسیسڈ غذا کی لت پڑ گئی تھی۔ ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’واقعی مزیدار کھانے کا ایک ضمنی اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے کھانا ختم کرنا واقعی مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر بیکٹ بھی یہ کہتی ہیں کہ یو پی ایف ایک مکینیزم پیدا کر دیتے ہیں جس کو ’امید پرستی‘ کہا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جنک فوڈ کے لیے مثبت جذبات ہمیں فوری طور پر متاثر کرتے ہیں۔ لیکن منفی اثرات میں اضافہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے لیے یہ یقین کرنا آسان ہے کہ ہمارے پاس بعد میں (اپنی کھانے کی عادات) کو تبدیل کرنے کا وقت ہو گا، یا اس کا نتیجہ بہرحال ناگزیر تھا۔‘ آسان زبان میں: اب آپ اسے پسند کریں گے، لیکن بعد میں آپ کو پچھتاوا ہوگا۔

ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ کہ گویا انھیں ہمیں اس کی لت لگانے کے لیے ابھی اور مدد کی ضرورت ہو، ان کھانوں کی جارحانہ مارکیٹنگ انھیں ہمارے ذہن میں اور بھی گہری طرح چھاپ دیتی ہے۔ ’ہمارے کھانے کے بہت سے انتخابات لاشعوری اور عادتاً ہوتے ہیں۔ ہم ہمیشہ جان بوجھ کر صحت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ جتنا ہم اسے اسٹوروں میں، میڈیا میں اور اشتہارات میں دیکھتے ہیں، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ہم اسے خریدیں گے۔

الٹرا پراسیسڈ غذائیں کیوں ہیں؟

تمام صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر یوپی ایف صحت کے لیے اتنا ہی خطرہ ہیں تو وہ ہیں ہی کیوں۔ ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ ’آسٹریلین گائیڈ ٹو ہیلتھی ایٹنگ‘ میں ہم ان غذاؤں کو ’صوابدیدی کھانے‘ کہتے ہیں، کیونکہ یہ ضرورت نہیں، انتخاب ہیں۔‘

لیکن وہ کہتی ہیں کہ جن کے پاس انتخاب کی سہولت ہے انھیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’ہر ایک، صحت کے لیے کھانے کے انتخاب کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ الٹرا پراسیسڈ کھانے طویل عرصے تک چلتے ہیں، نقل و حمل میں آسان ہوتے ہیں، اور ان کی تیاری میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ جب ہمارے پاس وقت یا کیش کم ہو تو یہ توازن کے لیے اچھا آپشن ہو سکتے ہیں۔

صحت سے مزید