لندن (پی اے) 1995 سے1997تک رہنے والے ٹوری پارٹی کے سابق وزیراعظم اور مارگریٹ تھیچر کی کابینہ کی کلیدی شخصیت گرینڈی مائیکل ہیزلٹائن نے متنبہ کیا ہے کہ عام انتخابات کی انتخابی مہم موجودہ دور کی سب سے زیادہ بے ایمانی پر مبنی انتخابی مہم ہوگی کیونکہ دونوں پارٹیوں نے بریگزٹ کے نتائج پر بحث کرنے سے انکار کردیا ہے۔ انڈیپنڈنٹ اخبار میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ہماری معیشت، دفاع اور ماحولیات کی صورت حال، معاشرے کو مساویانہ بنانے کی ضرورت، امیگریشن پر کنٹرول کرنے کی ضرورت اور یورپ کے ساتھ تعلقات اور دنیا میں برطانیہ کی ساکھ کی بحالی جیسے مسائل پر یورپ سے الگ رہ کر تنہائی میں حل نہیں کئےجاسکتے جبکہ یورپ نو گو ایریا بنا ہوا ہے، آخر دونوں پارٹیاں امیگریشن پر بحث کیوں نہیں کرتیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جن لوگوں کو روانڈا بھیجا جاسکے گا یا نہیں بھیجا جاسکے، ان میں کشتی سے آنے والوں کی تعداد 5 فیصد ہے، ان کی تعداد مجموعی700,000 کی امیگریشن میں بہت چھوٹا سا حصہ ہے، اصل ہاتھی تو کمرے میں ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ برطانیہ کو اپنے یورپی پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ قریبی رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنے فارمز، کیئر ہومز، ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کے حالات پر غور نہیں کریں گے، تبدیلی کی تمام باتیں ہوائی ثابت ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو برطانیہ نیٹو پر بھی بھروسہ کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس لئے یورپ کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات عام انتخابات کیلئے زور شور سے چلنے والی انتخابی مہم کے دوران سامنے آئی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے نیشنل سروس کے اعلان کے بعد کنزرویٹوز اور لیبر کے درمیان سیکورٹی کے مسئلہ پر جھگڑا کھڑا ہوگیا ہے۔ سر کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ اقتصادی سیکورٹی، بارڈر سیکورٹی اور نیشنل سیکورٹی پارٹی کے منشور کی بنیاد ہوں گے جبکہ وزیراعظم رشی سوناک یہ پیغام دے رہے ہیں کہ کنزرویٹو اگلی نسل کیلئے محفوظ مستقبل کیلئے بولڈ کارروائی کرے گی۔ ٹوریز کا کہنا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوگئی تو 18 سال عمر کے تمام لوگوں کو لازمی نیشنل سروس کرنا ہوگی۔