آسیہ عمران
اس کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ پانچ منٹ کے ارادے سے گئی تھی اور گھنٹہ گزار آئی۔ سادہ انداز ،محبت بھرا لہجہ ہاتھوں میں تیزی، وہ دوپہر کا کھانا بنا چکی تھیں۔ چولہا بند کرتے ہوئے بولیں۔ کل ہی سوچ رہی تھی سب پڑوسیوں سے ملاقات کروں گی تم سبقت لے گئیں۔
بات سمجھ میں نہ آئی تھی کیا پڑوسیوں سے ملاقات میں بھی سبقت لے جائی جاتی ہے۔ میں بے وقت جانے پر شرمندہ تھی کہنے لگیں۔ رحمت کاکوئی وقت مقرر نہیں، جب بھی آئے خوشی خوشی استقبال کرنا چاہیے اور آپ تو میر ے گھر میں پہلی مہمان ہیں، آپ کے اسلام علیکم کی صدا سے گھر میں برکتیں آئیں، فضائیں مہکیں۔ آپ نے سلامتی بھیجی، خیر و برکت ہی نہیں آئی، شیاطین نے بھی اپنی راہ لی۔
سلام سے شیاطین کا کیا تعلق؟ میں حیران ہوئی ۔ بولیں السلام علیکم ورحمتہ اللہ جس گھر میں گونجتا ہے شیاطین وہ جگہ خالی کر دیتے ہیں، کیوںکہ شیطان ،انسان کی سلامتی نہیں، فساد چاہتے ہیں۔ سلام کرنے سے شیطان کے منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں۔دوسرا اثر محبت بڑھنے کی صورت میں ہوتا ہے کہ پیارے نبی ﷺنے اسے محبت بڑھانے کا ذریعہ بتایا ہے۔ صحابہ کرام ؓکا آپس میں سلام کرنا عام تھا۔
ایک صحابیؓ کے بارے میں ہے کہ صرف اجر کی طلب میں بازار نکل جاتے اور ہر جگہ سے گزرتے سلام کرتے۔ سلام کرنے والے کے لئے بھی بے حد اجر و ثواب ہے۔یہ باتیں اس انداز سے پہلی دفعہ کسی نے بتائی تھیں۔ کھلونے صحن کے ایک حصے میں رکھے تھے پوچھا کتنے بچے ہیں۔
بولیں ماشاءاللہ سے تین ہیں۔ اپنی اولاد نہیں تھی بہن دو جڑواں بچوں کی پیدائش پر اس دنیا سے رخصت ہو گئی اور وہ پھول میرے آنگن کی رونق بن گئے۔ ایک بچہ نند نے پڑھنے کے لئے میرے پاس بھیجا ہے ۔ یوں میرے تین بچے ہوئے۔ اللہ ان کو نیک اور صالح بنائے یہی کوشش بھی ہے اور دعا بھی، اس وضاحت پر مجھے ان کے صبر کا اندازہ ہوا ، کہ میں سالوں سے اپنی گود بھرنے کی رب سے ضد لگائے بیٹھی ہوں۔
یہ ہماری نئی پڑوسن ہیں جو برابر والے گھر میں کل ہی شفٹ ہوئی تھیں۔ ساس نے حلیم بنایا تھا تاکید کی تھی کہ پڑوس میں ضرور دے آنا۔ وہ مجھے کچن میں ساتھ ہی لے گئی۔ جلدی سے چائے بنا کر دو کپوں میں ڈالی ،چائے پینے کے لیے ہم دنوں بالکنی میں آگئے۔ ان کی باتیں متاثر کرنے والی تھیں۔اپنائیت ،بشاشت، سادگی اور سچائی ان کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی۔ پہلی ملاقات میں ایسا لگ رہا تھاجیسے صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔انہیں نے مجھے سے پوچھا کتابیں پڑھتی ہو ؟
ان کے سوالات بھی معاشرے کی عام عورتوں سے الگ تھے ۔ کتابوں کی دیوار گیر الماریاں ایک کمرے میں جھانکتے ہوئے میں دیکھ چکی تھی۔ چائے پی کر جانے لگی تو انھوں نے شیلف سے اختر عباس کی کتاب ’’دل پر دستک ‘‘نکال کر دی، اس اصرار کے ساتھ کہ اسے ضرور پڑھنا۔ پھر ڈسکس کریں گے۔
میں نے بھی یہ کتاب ایک دن میں پڑھ لی۔ جی چاہا ہے اس پر ڈسکشن جلد کروں۔ غیر محسوس انداز میں وہ مجھےٹارگٹ بھی دے چکی تھیں۔ دروازے تک چھوڑتے اپنے احساسات بتانے لگیں کہ ہر نئی کتاب پڑھ کر لگتا ہے زندگی میں جیسے نئی روشنی، نیا در کھلا ہو۔ میں نے نکلتے نکلتے پوچھا دل موہ لینے کا ہنر کہاں سے سیکھا؟ کیوں کہ میں تعلق بنانے میں ہمیشہ ہی پیچھے رہتی تھی۔ کہنے لگیں میں بھی ایسی ہی تھی پھر تعلق بنانے کا فلسفہ اپنے شوہر سے سیکھا۔ میں سمجھی میاں کی دینداری کا قصہ سنائیں گی۔ وہ جیسے ماضی میں چلی گئیں۔
شادی کے شروع کے دن تھے۔ آفس جا کر بھی کئی بار فون کرتے اور میسیج تو مستقل ہی کرتے رہتے جیسے ہر لمحہ رابطے میں رہنا چاہتے ہوں۔ جب ذمہ داریاں بڑھیںتو یہ سب کرنا مشکل لگنے لگا، اکثر ناراض ہو جاتے۔ ایک دن واٹس ایپ آن ہی کہیں رکھ دیا، اس دن تو شامت آگئی ،کہنے لگے تم آن لائن تھی اور میرے میسج تک نہیں دیکھے۔ اگلے دن الگ ہی معاملہ تھاکہنے لگے میسیج پر بیلوٹک بھی لگی تھی لیکن تم نے جواب تک دینے کی زحمت نہیں کی۔ آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے اور دھمکی دی اب کبھی کال کروں گا نہ ہی میسیج۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
مجھے روتے دیکھ کر وہ سب بھول کر مجھے سے معذرت کرنے لگے لیکن میں کوئی وضاحت پیش نہ کرسکی ،کیوں کہ میں کسی اور ہی ندامت سے چور تھی ۔کوئی اور بھی ہے جو مجھے روز کال کرتا ہے دن میں پانچ بار پکارتا ہے۔کبھی مجھ سے مایوس نہیں ہوتا ، نہ ہی دھمکی دیتا ہے۔ کتنے سالوں سے جواب نہیں دیا اور وہ بس پکارے چلے جارہا ہے۔ یہی اصل تعلق ہے۔ بس پھر سفر شروع ہوگیا۔ پہلے اس کی کال غور سے سننے لگی۔ اذان کی آواز روح پر دستک دیتی دل میں اترنے لگی۔
سارے بوجھ چپکے چپکے اس سے بانٹنے لگی۔ یعنی میسیج سے بات کال کی طرف جانے لگی۔ پھر خاص کرم ہوا اور حالت یہ ہوئی وہ پکارتا ہے تو سب چھوڑ چھاڑ اس سے ملنے چلی جاتی ہوں۔ اس سے باتیں کرتی ہوں۔ اسی دوران انکشاف ہوا وہ ان کو پسند کرتا ہے جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں، تعلق رکھتے ہیں، بس پھر دل کھل گیا۔ اب اس کے بندوں سے محبت کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔ کلیہ وہی ہے اخلاص سے مستقل پکار، مستقل رابطہ کی کوشش کرو، تعلق خود ہی بن جاتا ہے۔