طلعت نفیس
ماہ نامہ ”لائف میگزین“ اُٹھاتے ہی وہ خوشی سے اُچھل پڑا۔ اس عالمی رسالے کی جانب سے اکثرو بیش تر تصویر کشی کے مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہتا تھا۔ تاہم، اس مقابلے کا عنوان نہایت مشکل تھا۔ موضوع تھا،’’تاریخی مقام پر سیّاحتی تاثرات‘‘ اور آخری تاریخ 25دسمبر 1982ء تھی۔ آج دسمبر کی دو تاریخ تھی اور صرف تئیس دن باقی تھے۔
مقابلے میں صرف اُن فوٹوگرافرز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی کہ جو کم ازکم تین مقابلوں میں پہلی سے تیسری پوزیشن پر کام یاب ہوئے ہوں۔ اُسامہ قلانچیں بَھرتا دالان کی طرف بھاگا اور دیوارمیں نصب فون کا ریسیور اُٹھا کر کان سے لگایا، مگر دوسری جانب سے آنے والی ’’ٹوں ٹوں‘‘ کی آواز نے اُس کے ارمانوں پر پانی پھیردیا۔
اسامہ کو فوٹوگرافی کا بےحد شوق تھا۔ نو سال کی عُمر میں جب اُس نے خُود سے دوسال بڑے بھائی سے پہلےقرآنِ پاک مکمل کیا، تو ابّا جان بہت خوش ہوئے اور اُنہوں نے لاڈ سے پوچھا کہ ’’بیٹا! تمہیں انعام میں کیا چاہیے؟‘‘ ’’آٹومیٹک لینس والا چھوٹا کیمرا…‘‘ تو، اسامہ نے جھٹ کہا تھا۔ پھراُس نے قدرت کی صنّاعی کی بہترین عکس بندی کی ابتدا کی۔ سمندر کے مدوجزر، لہلہاتے پودے، برستی بارش اور تیز ہواؤں میں جُھومتے درخت۔
بعدازاں، دوستوں کے گھروں میں ہونے والی چھوٹی موٹی تقریبات کی فوٹوگرافی سے اُس کے فن میں مزید نکھار آگیا اور اُس کے پاس اتنے پیسے بھی جمع ہوگئے کہ وہ کوڈک کمپنی کا ایک بہترین لینس والا کیمرا خریدنے میں کام یاب ہوگیا، جس میں 36 فوٹوز کی رِیل ڈلتی تھی۔
تب وہ چلچلاتی دھوپ، چمکتے بادلوں، موسلادھار بارش، ڈوبتے، اُبھرتے سورج اور دیگر قدرتی مناظر کی نہایت خُوب صورت عکس بندی کرکے مختلف مقابلوں میں بھیجنے لگا، یہاں تک کہ بیرونِ مُلک ”مون سون“ کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک تصویری مقابلے میں اُس کی بارش کی بوندوں کی تصویر نے پہلا انعام حاصل کرلیا۔
اسامہ نے فائل میں ترتیب سے رکھے مختلف مقابلوں کے سرٹیفکیٹس نکالے اور اُن کی پائوڈر کاپیاں کروا کر اُنہیں جریدے میں چَھپے پتے پرارسال کر دیا۔ اب اس نے گھر آکر ایک بار پھرجہاں گیر کا نمبر ملانا شروع کیا، لیکن ہنوز جواب ندارد…اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جہاں گیر کو کچا چبا ڈالے۔
دونوں بچپن کے دوست تھے، مگر دونوں کے شوق بالکل جدا جدا تھے۔ اسامہ فوٹو گرافی کا شوقین تھا، تو جہاں گیر کرکٹ کا دیوانہ۔ گرچہ اسامہ بھی کرکٹ میچز دیکھتا تھا، مگر اپنے دوست کی طرح کرکٹ کے لیے جنونی نہیں تھا۔
شام ہوچُکی تھی اور امّی باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ انہوں نے دبے قدموں سے اسامہ کو سائیکل کی جانب بڑھتے دیکھا، تو ہانک لگائی، ’’اب کہاں چلے؟‘‘ پھر طنزیہ انداز میں بولیں، ’’دوپہر میں تین گھنٹے آوارہ گردی کرکے دل نہیں بَھرا کیا؟ ابّو اور بھائی آتے ہی ہوں گے۔‘‘ ’’جہاں گیرکے پاس جا رہا ہوں۔ صبح سے اُس کا فون نہیں مل رہا۔‘‘
اسامہ نے جواب دیا اور پھر منّت سماجت کے انداز میں کہنے لگا۔ ’’امّی! جانے دیں ناں… وعدہ کرتا ہوں، ابّو کےآنےسے پہلے گھر واپس آجاؤں گا۔‘‘بیس سالہ بیٹے کے چہرے پر بکھری معصومیت دیکھ کر ماں کا دل پسیج گیا۔ ’’آپ ابّو سے کہہ دیجیے گا کہ جہاں گیر سے نوٹس لینے گیاہوں۔‘‘ ’’اچّھا…مگر کچھ پڑھ لکھ بھی لیا کرو۔ دن بھر جہاں گیر کے ساتھ آوارہ گردی کرتے رہتے ہو یا پھر کیمرا ہاتھ میں اُٹھائےہوائوں اور بادلوں کے پیچھے اُڑتے پھرتے ہو۔‘‘ امّی خفگی سے کہتی ہوئی دوبارہ باورچی خانے کی طرف چل دیں۔ ’’میری پیاری امّی…‘‘ اُس نے تشکّر آمیز نگاہوں سے اپنی امّی کی طرف دیکھا اور سائیکل کو ہینڈل سے گھسیٹتا ہوا باہر نکل گیا۔
اسامہ نے دروازےکی گھنٹی بجائی، تو بدقسمتی سے جہاں گیرکے ابّا باہر نکلے۔ ”جی برخوردار! اِس وقت؟‘‘ انہوں نےخشمگیں نگاہوں سے اُسے دیکھا۔ ’’جی جی…وہ…جہاں گیر…‘‘دوست کے ابّا کے تیور دیکھ کر الفاظ جیسے اُس کے حلق ہی میں اٹک گئے۔ تاہم، اُس نے جلدی سےجملہ پورا کیا۔ ’’جہاں گیر سے نوٹس لینے ہیں۔‘‘ ’’جہاں گیر سے نوٹس لینے ہیں؟‘‘
انہوں نے جانچتی نظروں سے اوپر سے نیچے تک اسامہ کا جائزہ لیتے ہوئے دہرایا۔ ’’اُس کے ساتھ رہ رہ کر تم بھی ناکارہ ہوجائوگے۔ وہ تو سارا سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھا کرکٹ ہی دیکھتا رہتا ہے۔ اُس کا پڑھائی سے کیا تعلق، واسطہ۔ بہرحال، تم اتنی دُورسےآئے ہو، تواُسے بھیجتا ہوں۔‘‘ اُن کے واپس ہوتے ہی اسامہ نے ہاتھ بلند کرکے اللہ کا شُکر ادا کیا اور پھر دل ہی دل میں دعا کی کہ ’’اب بس ابّا سے پہلے گھر پہنچ جائوں، ورنہ ایک اور عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کہاں مَرگیا تھا تُو؟ فون تو کریڈل پہ رکھ دیا کر۔ نمبرملا ملا کراُنگلیاں ٹوٹ گئیں۔ ‘‘جہاں گیر کو دیکھ کر وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔ ’’بہت زبردست میچ تھایار۔ میاں داد نےکیا دُھنائی کی، بھارتی بالرزکی… بڑاسنسنی خیزمقابلہ ہوا، مگر میچ ڈرا ہوگیا۔‘‘ جہاں گیر نے اُس کی بات تو سُنی اَن سُنی ہی کردی۔۔ ’’تم نے تو پورا ٹیسٹ میچ دیکھا ہوگا۔‘‘ اسامہ نےجہاں گیر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی ہاں، ایک ایک بال دیکھی۔‘‘ وہ بھی ایک ڈھیٹ تھا۔ ’’ویسے آپ کو مجھ سے ایسا کون سا کام آن پڑاکہ خُود ہی چل کر آگئے؟‘‘ جہاں گیر نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ یار! ایک جریدے میں فوٹوگرافی کے مقابلے کا اعلان شایع ہوا ہے۔ اُنہیں کسی تاریخی مقام پر موجود سیّاح کی تصویر بھیجنی ہے۔ اب کراچی میں تو کوئی تاریخی مقام ہے نہیں۔ لے دے کر ایک سمندر ہی بچتا ہے، جب کہ لاہور میں شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد جیسےمتعدّدتاریخی مقامات ہیں۔‘‘
’’تُجھےجانا ہے کیا؟‘‘ جہاں گیرنےگھر کے باہر بنے چبوترے پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! ابّا، جان سےماردیں گے، مگردو چھڑے چھانٹ لڑکوں کو لاہورنہیں جانے دیں گے۔‘‘ اسامہ نے مایوس کُن لہجے میں جواب دیا۔ یہ سُن کر جہاں گیر نے مشورہ دیا۔ ’’ویسے میرے ابّو تمہیں بہت قابل گردانتے ہیں۔ اُنہیں اعتماد میں لےلیتے ہیں۔ وہ تمہارے ابّا سے بات کرلیں گے اور پھر میری ایک پھوپھی بھی لاہور میں رہتی ہیں۔
میرے ابّو کسی بہانے سے تمہارے ابّا کو راضی کرسکتے ہیں۔‘‘ پھرکچھ توقّف کے بعد شرارتی لہجے میں بولا۔ ’’اِس طرح مَیں تمہارے خرچے پر قذافی اسٹیڈیم میں دوسرا ٹیسٹ میچ بھی دیکھ لوں گا۔‘‘ ’’فی الحال تو مَیں گھر جارہا ہوں۔ مُجھے ڈر ہے کہ کہیں ابّو اور بھائی نہ آگئے ہوں۔ ابّو رات کو دیر سے گھر آنے پر سخت ناراض ہوتے ہیں اور پھر اُن سے لاہور جانے کی اجازت بھی لینی ہے۔ مَیں تمہارے ابّو سے ٹیلی فون پر بات کروں گا۔ بس، تم مہربانی فرما کر ریسیور، کریڈل پر رکھ دینا۔‘‘ اسامہ نے عجلت میں بات مکمل کی اور اپنی سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔
رات کوجب سب سوگئے، تو اسامہ فون دیوار سےاُتار کر اپنے کمرے میں لے گیا اور پھر تھوڑی سی جدوجہد کے بعد جہاں گیر کے ابّو کو اپنے ابّا سے بات کرنے پر آمادہ کرہی لیا۔ انہوں نے صبح ہی اس کے ابّا سے فون پر بات کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم، اگلے روز وہ دن بھر یہی سوچ کر پریشان ہوتا رہا کہ جب ابّا کو اُس کے لاہور جانے کے ارادے کا پتا چلے گا، تو اُن کا کیا ردِعمل ہو گا اور اگر انہوں نے انکار کر دیا تو کیا ہوگا۔ اِن ہی خیالات کے ہجوم کے ساتھ وہ دن بھر مختلف کاموں میں امّی کا ہاتھ بھی بٹاتا رہا۔
’’سُناہے، آپ بہت بڑے فوٹوگرافر بن گئے ہیں؟‘‘ ابّا نے دسترخوان پر بیٹھتے ہی کہا۔ تو امّی نے فوراً سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا۔ ’’بیگ صاحب (جہاں گیر کے ابّو) کا آفس میں فون آیاتھا۔اُن کی بھانجی کی لاہور میں منگنی ہے اورہمارے صاحب زادے کو فوٹوگرافی کے لیے خصوصی دعوت دی گئی ہے۔‘‘ ’’وہ ابّو کوڈک کا کیمرا نیا نیا آیا ہے ناں… کسی کسی کے پاس ہی ہوتا ہے۔ شاید اِسی لیے…‘‘ اسامہ کا دل بلیوں اُچھل رہا تھا۔ ’’کیا سب جارہے ہیں؟‘‘ امّی نے پوچھا۔ ’’نہیں، صرف جہاں گیر اور اسامہ جائیں گے۔ آسان تھوڑا ہی ہے سات، آٹھ لوگوں کا لاہور آنا جانا۔ وہ بھی اس منہگائی کے دَور میں۔‘‘’’ آپ نے مُجھ سے پوچھے بغیر کیسے اجازت دے دی؟‘‘ امّی نے ناراضی سے پوچھا۔ ’’ارے امّی! جانےدیں۔ کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ بھیّا نے امّی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اور یوں اسامہ کو لاہور جانے کی اجازت مل ہی گئی۔ اب وہ اور جہاں گیر کراچی ایکسپریس میں لاہور کی جانب رواں دواں تھے۔
اگلےروز دونوں جہاں گیر کی پھوپھی کے گھر سے تازہ دَم ہوکر نکلے۔ میچ کل سے شروع ہونا تھا، اِس لیےجہاں گیر، اسامہ کے ساتھ ہی تھا۔ دونوں چھوٹی سی بارہ سیٹر گاڑی میں ٹھنس کر بیٹھ گئے۔ جذبۂ خیر سگالی کے تحت بھارتی تماشائیوں کے لیے ویزے کی شرائط میں خاصی نرمی کردی گئی تھی اور بھارتی باشندوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد میچ دیکھنے لاہور آئی ہوئی تھی۔
گاڑی میں بھی ایک انڈین فیملی دروازے کے ساتھ والی نشست پر براجمان تھی، جس میں اُلٹے پلّو کی ساڑی میں ملبوس، ماتھے پر لال بندیا لگائے ایک معمّر خاتون، نو سے دس سال کا ایک بچّہ اور تقریباً بیس کے سَن کو چُھوتی ایک الہڑ سی لڑکی شامل تھی۔ وہ لڑکی تیز ہوا کے باعث پریشان تھی۔ اپنا پلّو سَر پرٹکاتی مگر اوائلِ دسمبرکی تیز ہوا باربار اُسے اڑا دیتی۔ اسامہ کا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ وہی ’’سیلانی‘‘ ہے، جو اُسے پہلے انعام کا حق دار بنوائے گی۔
یادگار پر بس رُکی، تو وہ لڑکی بوڑھی خاتون اور بچّے کے ساتھ نیچے اُتری۔ اسامہ نے فوراً کیمرا کیس سے باہر نکالا، تو جہاں گیر نے اُس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’’بیٹا! جذبات قابو میں رکھ۔ اُس کے ساتھ ایک بڑھیا بھی ہے۔ کہیں جیل کی ہوا نہ کھانی پڑے۔‘‘ فیملی کے پیچھے چلتے چلتے وہ دونوں بھی قلعے میں داخل ہوگئے۔ بچّہ اُن دونوں کو دیکھ کرمُسکرایا، تو اسامہ نے اُس سے پوچھا کہ ’’کیا مَیں تمہاری تصویر کھینچ لوں؟‘‘ وہ دراصل اُس بچّے کے ذریعے لڑکی تک پہنچنا چاہتا تھا۔ ’’نہیں، آشا دیدی مارے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھاگ گیا۔ ’’یار! پٹوائے گا تُو…‘‘ جہاں گیر نے غصّے سے کہا۔ اسامہ کیمرے کے لینس کو آنکھوں سےلگائےگھوما، تو شِیش محل کے تمام شیشوں سےاُس لڑکی کا عکس منعکس ہورہا تھا۔ یہ بہت دِل کش پوز تھا۔ اُس نے کیمرے کی انفنیٹی سیٹ کرکے کلک کیا، مگربڑی بی اچانک ہی سامنے آگئیں اور اُس کی تصویر خراب ہوگئی۔ اُس کی بھارتی ناری کی تصویر کھینچنے کی چار کوششیں ناکام ہو چُکی تھیں۔
جہاں گیر اس کھیل سے تنگ آکر قریبی ہوٹل میں چائے پینے چلا گیا۔ اب وہ تالاب میں پائوں ڈالے بیٹھی تھی اور اِس کی اجازت صرف غیر مُلکی سیّاحوں کو تھی۔ پھر وہ دونوں ہاتھوں سے پانی ہوا میں اُچھالنے لگی۔ اُس لڑکی کی نگاہیں نیلے گگن پر جَمی ہوئی تھیں۔ اسامہ نے سامنے کے چھجّے سے ایک بار پھر کلک کیا، مگر شاید وہ بھانپ چُکی تھی اور یہ اُس کی آٹھویں ناکام کوشش تھی۔ اب وہ خواب گاہِ جہاں گیر کے حسین و منقّش بھاری دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی اور اِس مرتبہ اسامہ اُس کی خُوب صُورت سی تصویر لینے میں کام یاب ہوگیا۔ جہاں گیر بھی اب واپس آ چُکا تھا۔
اب اُس کے قدم نو لکھا محل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ’’جیسے ہی وہ سیڑھیاں چڑھے گی، تو ہمیں کوئی نہ کوئی دِل کش پوزضرور مل جائےگا۔‘‘ اسامہ وارفتگی سے بولا۔ اور پھر وہ ایک اورشاہ کار فوٹو لینے میں کام یاب ہوگیا۔ 36 کی پوری رِیل میں صرف چار یا پانچ پوز تھے اور اُن میں سے منتخب کردہ تصویریں اُسے مقابلے کے لیے بھیجنی تھیں۔
اُس نے قریب ہی موجود ایک فوٹواسٹوڈیو پر رِیل دُھلنے کے لیے دے دی۔ وہ اپنی اس کام یابی پر بےحد مسرور تھا۔ ’’بھائی کب تک ملےگی؟ تھوڑی جلدی ہے۔‘‘ اسامہ لجاجت سے بولا۔ ’’تین دن سے کم وقت نہیں لگے گا۔ کام بہت ہے۔‘‘ فوٹو اسٹوڈیو والے نےکیمرے سے رِیل نکال کر ڈبے میں محفوظ کرتے ہوئے خالصتاً کاورباری لہجے میں جواب دیا۔ ’’چل یار! ٹھیک ہےناں، ہم بھی اب آرام والے دن ہی نکلیں گے۔‘‘جہاں گیر نے کہا۔
تینوں دن کا کھیل دونوں نے دل لگا کر دیکھا۔ جاویدمیاں داد اورظہیرعبّاس کی جان داربیٹنگ اورعمران خان اور سرفراز نواز کی شان دار بائولنگ سے خُوب لطف اُٹھایا اور کھلاڑیوں سے ہاتھ بھی ملائے۔ میچ پاکستان کے حق میں تھا۔ دونوں تیسرے دن کا کھیل دیکھ کراسٹیڈیم سے باہر نکلے۔ اگلے روز آرام کا دن تھا اور انہوں نے رات کو بذریعہ ٹرین واپسی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ’’ویسے تو کرکٹ میں آخری گیند تک کچھ کہا نہیں جاسکتا اور ہوسکتا ہے....!!‘‘ اسامہ نے شرارتی نظروں سے جہاں گیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہارنے کا نام بھی مت لینا،ورنہ گھونسا پڑے گا۔‘‘جہاں گیر پاک بھارت میچ کے دوران اِسی طرح جذباتی ہوجاتا تھا۔
اب وہ دونوں تانگےمیں بیٹھ کراسٹوڈیو کی جانب رواں دواں تھے۔ اسٹوڈیو پہنچ کر اسامہ نے مقابلےکی شرائط کےمطابق بنوائی گئی تصاویر وصول کیں اور بڑی بےقراری سے لفافہ کھول کر تصاویر دیکھنے لگا۔ مگر…اُن میں سے کوئی ایک بھی تصویر اِس قابل نہ تھی کہ اُسے مقابلے میں بھیجا جاتا۔ تمام تصاویر میں صرف حسین نظارے ہی دکھائی دے رہے تھے، جب کہ لڑکی غائب تھی۔ وہ مایوسی کے عالم میں سَر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
اسامہ نے دل ہی دل میں سوچا کہ ’’اُسے شاید اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ مَیں اس کی تصویر کھینچنا چاہتا ہوں۔‘‘ جہاں گیر کو بھی اُسامہ کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ ساری محنت اکارت گئی۔ جیب بھی خالی ہو چُکی تھی اور اب وقت بھی نہیں تھا۔ تصاویر بھیجنے کی آخری تاریخ میں صرف دو دن رہ گئے تھے۔ اُس نے سوچا تھا اچھی سی تصاویر لےکروہیں سے سپردِ ڈاک کردے گا۔ ’’تُو تو ہمیشہ ہی جیتتا ہے اور ویسے بھی یہ مقابلے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پھر کبھی سہی…‘‘ جہاں گیرنے اُسے تسلّی دی۔
اگلے مہینے کی 5تاریخ کوجریدہ اُس کے ہاتھ میں تھا۔ وہاں ’’سیلانی‘‘ کے عنوان سے جو تصویراوّل انعام کی حق دار قرارپائی تھی۔ اُسے دیکھ کر تو جیسے اُس کی آنکھیں پَھٹی کی پَھٹی رہ گئیں۔ وہ اُس کی اپنی تصویرتھی۔ بکھرے بال، خاک آلود کپڑے، کندھے پر مٹیالا جھولا، دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے اور اُبلی ہوئی آنکھیں… تصویرمیں وہ بالکل اول جلول لگ رہا تھا۔
اُسے یاد آیا کہ یہ تصویر اُس وقت کھینچی گئی تھی کہ جب وہ لڑکی شیش محل سے نکل کر اچانک کہیں غائب ہوگئی تھی اور وہ اُسے پاگلوں کی طرح چاروں جانب ڈھونڈرہا تھا۔ اُس نے جیتنے والی کا نام پڑھا، تولکھا تھا، ’’آشا بھٹ ناگر‘‘۔ فوٹوگرافر کا نام پڑھ کراُس کے منہ سے بےاختیار ہی نکلا ’’اُف…مَیں بھی کس قدراحمق ہوں‘‘ اور پھر میگزین پھینک کر اپنے بال نوچنے لگا۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے’’ صفحہ ڈائجسٹ‘‘
رخصتی ( آسیہ پری وش، حیدرآباد) مَیں لُٹ گئی، کوڑھ مغز، بوجھ ہے (مبشّرہ خالد، کراچی) وہ ( نسیم امیر عالم، حیدر آباد)یومِ دفاع (مریم شہزاد، کراچی) بازی (طوبیٰ احسن) بولڈنیس، ماں تو ماں ہے، قناعت و امانت، ایثار، گواہی (صبا احمد)، پُرانا تعویذ، احساس (ارسلان اللہ خان ، کراچی)،جنّت کا راستہ (ریطہ طارق)، خونی رشتے، میری کہانی (صائمہ فرید)، شوقِ شہادت (سماویہ وحید)، فراڈیا (کرن نعمان) آخری دِیا سلائی، لکھنؤ کافی ہائوس کی ایک شام (جمیل ادیب سیّد )، میچورٹی کا عذاب (عروج احمد، لاہور)، جدائی کاغم ، بے رنگ میکہ ، یادیں تمہارے نام (نورین مصطفیٰ)، چائے کی ایک پیالی (عینی فریال)، مَیں تمہیں بتا نہیں سکتا، جان فوسو کی کہانی کا ترجمہ (استوتی اگروال)، نیلوفر (نورین خان، پشاور)۔