• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھی دماغی صحت اور یادداشت کیلئے ورزش ضروری

ہم سب ورزش کے جسمانی صحت پر پڑنے والے مثبت اور زبردست اثرات کے حوالے سے بخوبی واقف ہیں اور اس حوالے سے کئی سائنسی تحقیقات اور مطالعے دستیاب ہیں۔ 

اس کے ساتھ، آپ نے ’صحت مند جسم میں صحت مند روح‘ جیسی کہاوت بھی ضرور سُنی ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ جسمانی ورزش کے باعث انسان کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جسمانی ورزش اور دماغی صحت میں تعلق 

یہ بات سائنسی تحقیق کی روشنی میں ثابت شدہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہمارے جسم میں ٹشوز اور اعضا کی صلاحیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، خلیوں کے کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹشوز بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ اسی طرح، ہمارے دماغ کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ہمارے اعصاب بھی کمزور ہوتے ہیں اور نیورونز کا نقصان ہوتا ہے۔

چاہے وہ الزائمرز کی بیماری ہو یا حرکت کی صلاحیت میں کمی ہو، عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے اور دماغ میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو دیگر جسمانی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں دماغ کے کورٹیکل ایریا کا سکڑنا، سرمئی نیورونل باڈیز اور اعصابی ترسیل سے متعلق ٹشوز کا نقصان، وینٹریکلز کے حجم میں اضافہ اور نیورونز کی کمی شامل ہے۔ 

کئی برسوں تک ہونے والی ایک تحقیق، جس میں رضاکارانہ طور پر سینکڑوں افراد نے شرکت کی، میں معلوم ہوا کہ عمر کے ساتھ اعضا کی صلاحیت میں کمی کی ایک وجہ سیریبرل وینٹریکل کے حجم میں اضافہ ہے۔ اسے دماغ کا ’خالی‘ حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے باعث دماغ کی نیورو ڈی جینریشن اور کمزوری بھی بڑھ جاتی ہے۔

باقاعدہ ورزش، یادداشت میں بہتری 

اگر اعضا کی صلاحیت میں کمی کا مطلب دماغ کے حجم میں کمی واقع ہونا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی توانائی کا ورزش کے ذریعے بہتر استعمال ہمارے دماغ میں ٹشوز کے نقصان کی رفتار کو کم کر سکتا ہے۔ اس کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کی صلاحیت بہتر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی طریقے کو پرکھنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتائج کا فوری اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

انسانی دماغ خون یا پٹھوں جیسا نہیں ہوتا کہ اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی فوری طور پر واضح ہو جائے یا اس کو ناپنے کا کوئی واضح طریقہ موجود ہو۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ دور میں امیجنگ کے بہترین طریقوں کے باعث اب دماغ کے کچھ حصوں میں تبدیلی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ 

ہمارے پاس اس بارے میں پہلے سے شواہد موجود ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک جسمانی ورزش کرنے سے ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور اس سے دماغ کے کچھ حصوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس حوالے سے 2011ء میں امریکا میں ایک تحقیق کی گئی تھی۔ یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے پیپر (پی این اے ایس) میں شائع ہوئی تھی جس میں یہ بتایا گیا کہ ورزش کے باعث دماغ کے اس حصے کا حجم بڑھتا ہے جو یادداشت کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

ضعیف افراد میں ہونے والی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی ورزش کے باعث دماغ کے اس حصے کا حجم کم ہونے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک ایسی ہی تحقیق میں ضعیف العمر افراد کے دماغ پر جسمانی ورزش کے اثرات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی ورزش کرنے والے افراد، عام طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ جس ڈی جینریشن یا انحطاط کا شکار ہوتے ہیں، اس سے محفوظ رہتے ہیں۔

ہم جب اپنے جسم کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ جیسے اس کے مختلف حصے ہیں، اور ہر عضو خود ہی کام کر رہا ہے۔ اگر ہمارے جگر میں کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس ہی پر توجہ دیتے ہیں، اور اگر ہمارے گردے میں کوئی مسئلہ ہو تو ہم اس پر توجہ دیتے ہیں۔ تاہم ہمارا جسم ایسے کام نہیں کرتا، بلکہ اس میں موجود تمام اعضا آپس میں مربوط ہیں اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے گردے میں مسئلہ ہوتا ہے تو اس سے دل کا عارضہ شدت اختیار کر جاتا ہے، یا جگر کے عارضے کے باعث دماغی عارضہ سیریبرل اسکیمیا ہو سکتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم کے پیچیدہ نظام کی صورتحال خاصی نازک ہوتی ہے۔

جب ہم ورزش کرتے ہیں تو ہم اپنے جسم کو درمیانے درجے کے دباؤ میں ڈالتے ہیں تاکہ ہم ان خلیوں کو زیادہ توانائی پیدا کرنے پر مجبور کر سکیں۔ اس کا مطلب غذائی اجزا کو اسٹور سے پٹھوں تک پہنچانا ہے۔ اس دباؤ سے نبرد آزما ہونے کے لیے جو جسمانی تبدیلیاں ضروری ہوتی ہیں، انھیں ہورمیسز کہا جاتا ہے۔

ہورمیسز کے مراحل میں پٹھے ایسا مادہ خارج کرتے ہیں جو دوسرے اعضا کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ توانائی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مادے کو مائیوکینز کہا جاتا ہے اور یہ ہمارے خون میں خارج ہوتے ہیں جہاں سے اسے دیگر اعضا تک پہنچایا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ مائیوکینز دماغ تک پہنچ جاتے ہیں جہاں یہ نیورونز کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں کہ وہ نئے رابطے قائم کر سکیں یا پہلے سے قائم رابطوں کو مزید مضبوط کر سکیں۔ 

ان میں سے ایک مائیوکینز بی ڈی این ایف کہلاتا ہے جو نیورونز کے لیے رابطہ قائم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے اور انھیں چست رکھتا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ سی مثال ہے جس کے ذریعے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ جسمانی ورزش کے ذریعے دماغ کا حجم کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب، جسمانی ورزش کے ذریعے خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے اور جسم کو ملنے والی آکسیجن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے دماغی صلاحیت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متوازن ورزش کے سوزش کش اثرات ہوتے ہیں، جن کے دماغ پر اثرات ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر الزائمرز یا ڈیمینشیا سست ہو جاتی ہے۔ براہ راست اور بالواسطہ سائنسی شواہد یہ بات واضح کرتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ورزش کرنے کے باعث دماغی صلاحیت میں کمی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ 

اسی لیے سستی اور غیر فعال طرزِ زندگی سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ ہم صرف زندگی میں مزید سال ہی نہیں بلکہ ان برسوں میں مزید زندگی بھی شامل کر سکیں۔

صحت سے مزید