شاہین اقبال اثر
چلا آتا ہے خود انجام سے انجان ہے بکرا
نہیں ہرگز نہیں کس نے کہا نادان ہے بکرا
جو سچ پوچھو تو اس رخ سے وہ ہم لوگوں سے بہتر ہے
کہ اپنے خالق و مالک پہ خود قربان ہے بکرا
حقیقت میں وہی بکرا ہے اچھا دیکھ کر جس کو
قصائی کہ اٹھے فربہ ہے عالی شان ہے بکرا
بھلا تجھ تک پہنچ سکتے ہیں ہم انسان اب کیونکر
ہمارے گھر تو آیا ہے ترا احسان ہے بکرا
قصائی کی ضرورت ہی نہیں ہے بعض بکروں کو
چھری کو دیکھ کر خود آپ ہی قربان ہے بکرا
دیہاتی لوگ بھی اللہ میاں کی گائے ہیں گویا
کہ بکرے پر لکھا ہے میڈ ان جاپان ہے بکرا
مرے ابو مجھے دلوایئے بکرا بہر صورت
مری خواہش ہے قربانی مرا ارمان ہے بکرا
لبادہ سرخ اوڑھے تخت پر بیٹھا ہے نخوت سے
کہ اعلیٰ نسل کا ہے اور عالی شان ہے بکرا
لگا منڈی پہنچ کر اشرف المخلوق ہیں بکرے
ہوا انسان کو محسوس خود انسان ہے بکرا