مولانا ڈاکٹر فہد انوار
انسان اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں افضل ہے۔ شکل وصورت اور علم وشعور دونوں اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی دیگر مخلوقات پر برتری بخشی ہے۔ اسی کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اور ہم نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو عزت دی ، اور ہم نے انہیں خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں انہیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔‘‘(سورۃالاسراء:۷۰) دوسری جگہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:’’ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔‘‘(سورۂ والتّین:۴)
اس آیت کے تحت امام بغوی ؒاپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’انسان قدوقامت کے لحاظ سے متناسب اور شکل وصورت کے لحاظ سے حسین ترین ہوتا ہے۔ باقی سب حیوانات آگے کو جھکے ہوتے ہیں، جبکہ انسان سیدھی قدوقامت میں ہوتا ہے۔ اپنے کھانے کی چیز کو ہاتھ میں لیتا ہے،عقل اوراشیاء میں تمیز کرنے سے مزین ہوتا ہے۔‘‘ (معالم التنزیل فی تفسیر القرآن:۸/۴۷۲، دارطیبہ)
اب وہ علم جس کا تعلق براہِ راست جسمِ انسانی کی حفاظت وبہتری سے ہے، وہ بھی شرافت کا حامل ہے، اسی لیے طب کا شعبہ ان خصوصیات وفضائل کا حامل ہے جو دیگر شعبوں کو میسر نہیں۔ اس شعبے کا وقار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے وابستہ افراد اپنے اخلاق وعادات میں دوسروں سے ممتاز ہوں۔
نبی کریم ﷺ کی مبارک تعلیمات میں طبیب اور دیگر افراد جو صحت کے شعبے میں خدمات انجام دیتے ہیں، ان کے لیے رہنمائی ہے۔ آنے والی سطور میں آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ان اقدار کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی، جن سے طبی میدان میں کام کرنے والے افراد بالخصوص معالجین (ڈاکٹرز) کو وابستہ ہونا ضروری ہے۔
1- نیت کی درستی:۔ اس حوالے سے ہم آنحضرت ﷺ کا وہ ارشاد نقل کرتے ہیں جس سے امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کا آغاز کیا ہے:’’تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترکِ وطن)دولتِ دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو، پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
اس ارشادِ گرامی کی روشنی میں ایک طبیب کو چاہیے کہ وہ مریض کو دیکھتے ہوئےاپنی نیت دنیوی مفادات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کرے، اور چونکہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوتے ہیں جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، لہٰذا یہ اچھے طریقے سے اللہ کے بندے کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرے۔
یہ اس بات سے مانع نہیں کہ آدمی مریض سے فیس نہ لے، بلکہ جو مشورہ وہ دے رہا ہے، اس کے بدلے میں مناسب اُجرت لینی بھی جائز ہے۔ ایسے ہی جو لوگ طب کی تعلیم وتحقیق سے وابستہ ہیں، وہ بھی انسانیت کو فائدہ پہنچانے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کی نیت کریں۔
2- صحیح مشورہ دینا:۔ طبیب کی حیثیت ایک مشیر کی ہوتی ہے۔ لوگ اپنے جسمانی مسائل طبیب کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے سامنے رکھتے ہیں، تاکہ وہ ان کا حل بتاسکے، اس لیے طبیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ مریض کو بہتر مشورہ دے۔ اپنے فائدے کی خاطر مریض کو ایسا مشورہ دینا گناہ ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو، مثلاً جراح (سرجن) بلا ضرورت مریض کو آپریشن کرالینے کا مشورہ نہ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس سے کسی معاملے میں مشورہ کیا جائے، وہ اس میں امین ہے (اور اس کے سپرد امانت کی جاتی ہے۔ (سنن ترمذی)
3- اللہ تعالیٰ کے بندوں پر رحم کرنا:۔ رحم ایک عمدہ صفت ہے، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں رحمان ورحیم بھی ہیں۔ دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت رحم کرنے والاہے۔ اپنے بندوں میں بھی اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتاہے جس میں رحم دلی ہو۔ طبیب کے لیے رحم دل ہونا ضروری ہے۔
انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کر کے ان کا علاج کرنا اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا مبارک ارشاد ہے:حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر بڑی رحمت والا رحم کرے گا، زمین پر رہنے بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحمت کرے گا۔ ‘‘ (سنن ترمذی)
4- آسانیاں مہیّا کرنا:۔ معالج کے منصب کا تقاضا ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیا ں فراہم کرے۔ تکلیف میں مبتلا شخص اور اس کے احباب پر سے دشواریاں دور کرے اور انہیں مزید مشکلات میں نہ ڈالے۔ بے جا دوائیں اور لیبارٹری ٹیسٹوں کی بھرمار کرکے مریضوں کو مالی مشکلات میں مبتلانہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو پسند فرماتا ہے جو لوگوں کے لیے آسانیوں کی جائز صورتیں مہیا کرتے ہیں۔ معالج کو امید کی کرن بننا چاہیے نہ کہ تاریکیوں میں دھکیلنے والا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:’’جو کسی آدمی کی دنیوی تکلیف کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں راحت سے نوازتے ہیں، جو تنگی میں مبتلا شخص کے لیے آسانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا آخرت میں آسانی فرماتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی)
5- رازداری:۔ طب کا شعبہ ایک احساسِ تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، جہاں مریض ڈاکٹرکو علامات سے آگاہ کرنے میں آزاد ہو۔ بسا اوقات مریض کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس کا اظہار اس کے لیے شرمناک ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں طبیب کو مریض کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے اور بغیر اس کی اجازت کے معلومات آگے مشترک نہیں کرنی چاہئیں۔
مریض کے مرض اور جسمانی عیوب سے متعلق معلومات ڈاکٹر کے پاس ایک راز ہوتا ہے، جس کی حفاظت ضروری ہے۔ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے ایک مجلس میں کی جانے والی باتوں کو امانت قراردیا۔ ملاحظہ فرمائیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجلسیں امانت داری کے ساتھ ہیں (یعنی ایک مجلس کی بات دوسری جگہ جا کر بیان نہیں کرنی چاہیے) سوائے تین مجلسوں کے، ایک جس میں ناحق خون بہایا جائے، دوسری جس میں بدکاری کی جائے اور تیسری جس میں ناحق کسی کا مال لوٹا جائے۔ ‘‘(سنن ابو داؤد)
دوسری جگہ مسلمان کے عیوب چھپانے پر عظیم خوشخبری سنائی گئی ہے: حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :جو کسی آدمی کی دنیوی تکلیف کو دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں راحت سے نوازتے ہیں، جو تنگی میں مبتلا شخص کے لیے آسانی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی فرماتے ہیں اور جو کسی مسلمان کےعیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کی پردہ پوشی فرماتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد فرماتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ ‘‘(سنن ترمذی)
6-پیشہ وارانہ مہارت:۔ نبی اکرم ﷺ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے کہ آدمی کام کو خوش اسلوبی سےانجام دے، مثلاً وضو کرے تو اچھی طرح کرے، ایسے ہی نماز پڑھے تو اچھی طرح پڑھے۔ اسی طرح جو جائز کام اپنے ذمے لے، اسے اچھے طریقے سے پورا کرے، چنانچہ ارشادِ گرامی ہے:’’بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کوئی عمل کرے تو اس میں پختگی پیدا کرے۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی) اس ارشادِ گرامی کی روشنی میں طبیب کے پاس اپنے شعبے اور جس مرض کا علاج کررہا ہے اس کی مہارت ہونا ضروری ہے۔
ایک دوسری جگہ بطور خاص طبیب کے لیے مہارت اور علمِ طب میں اس کی شہرت ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا۔ ارشادِ گرامی ہے: ’’جو شخص اپنے آپ کو طبیب ظاہر کرکے علاج کرے، حالاں کہ اس سے پہلے اس کا طبیب ہونا معلوم نہ ہو (یعنی وہ فنِ طب کی مہارت میں مشہور نہ ہو اور علاج کرے،پھر اس کے علاج سے مریض کا کوئی عضو تلف ہوجائے، یا اس کا انتقال ہوجائے) تو وہ (مریض کا) ضامن ہوگا۔ ‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الطب)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کرنے والے شخص کے پاس متعلقہ طبی معلومات ہونا ضروری ہیں۔ طب کے پیشے سے ناواقف کے علاج کے نتیجے میں مریض کو لاحق ہونے والے ضرر (نقصان )کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی، لہٰذا علاج کرنے والے شخص کا صحیح معلومات رکھنا اور ماہر ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں ہے تو اسے علاج کرنے سے رک جانا ضروری ہے۔
7- سچ کی پابندی :۔ طبیب کے لیے سچ کی پابندی کرنا بھی ضروری ہے۔ مرض کی درست تشخیص کرکے مریض اور اس کے متعلقین کو صحیح بات بتانا اور علاج کے دوران بھی جھوٹ سے بچنا ضروری ہے۔ مادی فوائد کے حصول کی خاطر جھوٹ بول کر مریض کو تشویش اور پریشانی میں ڈالنا یا بلا ضرورت لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کرنا کبیرہ گناہ ہے:
’’بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم ،کتاب البروالصلۃ والآداب)
8- امانت داری:۔ طبیب کے پاس مریض کا راز ایک امانت ہوتا ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔ مرض کی تاریخ (ہسٹری) لیتے ہوئے یا معائنہ کرتے ہوئے جو بھی طبیب کے علم میں آئے، وہ ایک امانت ہے۔ تاہم مریض کا نام لیے بغیر آگے تعلیم یا تحقیقی مقاصد سے اسے بیان کرنا جائز ہے۔ ایسے ہی جو ذمہ داری طبی میدان میں کام کرنے والوں کو سونپی گئی اسے بھی ایک امانت سمجھ کر ادا کرنا ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادِ گرامی سے امانت داری کی اہمیت معلوم ہوتی ہے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘(صحیح مسلم، باب بیان خصال المنافق)