عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جہاں بالوں میں سفیدی، چہرے پر جھریاں اور دیگر تبدیلیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں، وہیں کچھ لوگوں کے پاؤں کے انگوٹھے کی ہڈی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے، جسے گَٹّا یا گوکھرُو کہا جاتا ہے جبکہ انگریزی زبان میں Bunion کہتے ہیں۔ مرد و خواتین دونوں میں ہی خاص طور پر 65سال کی عمر کے بعد یہ کافی عام ہے۔
اندازے بتاتے ہیں کہ 65 سال تک کی عمر کے چار میں سے ایک اور 65 سال سے زیادہ عمر کے تین میں سے ایک شخص کو یہ طبی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ بچوں میں بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر 10 سے 15 سال کی عمر کی لڑکیوں میں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ پاؤں کے انگوٹھے کی ہڈی بڑھنے کا علاج اکثر بغیر سرجری کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بعض صورتوں میں یہ زیادہ شدید مسائل کا باعث بن سکتی ہے، جس کے لیے جارحانہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
گَٹّا اور گاؤٹ میں فرق
دراصل گَٹّا (Bunion) ہڈیوں کی خرابی یا اُبھار ہے، جو پاؤں کی ایک جانب انگوٹھے کے جوڑ پر سامنے آتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پیر کا انگوٹھا ساتھ والی انگلی کے خلاف اپنے آپ کو دھکیلتا ہے، جس کی وجہ سے انگوٹھے کا جوڑ وقت کے ساتھ ساتھ دوسری انگلیوں سے دور باہر کی طرف ہوجاتا ہے۔
چونکہ پاؤں کے جوڑ ہمارے جسم کا بہت زیادہ وزن اٹھاتے ہیں خواہ ہم کھڑے ہوں، چل رہے ہوں یا دوڑ رہے ہوں، ایسے میں پاؤں کے انگوٹھے کی بڑھی ہوئی ہڈی بہت تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔
اس میں یا تو ہر وقت تکلیف رہتی ہے یا پھر وقفے وقفے سے، خاص طور پر گھنٹوں کی سرگرمی کے بعد جب پیروں پر دباؤ پڑتا ہے۔ درد کے علاوہ، پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ کی خرابی سبب بن سکتی ہے:
٭ اکڑن، لالی اور سوجن
٭ جِلد کا سخت ہونا (جہاں انگوٹھا اور ساتھ والی انگلی رگڑ کھاتے ہیں یا انگوٹھے کے جوڑ کی نچلی جانب)
٭ انگوٹھے کی محدود حرکت (خاص طور پر اگر اس میں گٹھیا ہے)
دوسری جانب گاؤٹ (Gout) اس وقت ہوتا ہے جب خون میں یورک ایسڈ کی زیادتی کی وجہ سے جوڑوں اور ٹشوز میں یورک ایسڈ کے کرسٹل بن جاتے ہیں۔ گاؤٹ، پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ سے شروع ہوتا ہے جسے غذائی تبدیلیوں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
کیا چیز خطرے میں ڈالتی ہے؟
تحقیق سے اب تک یہ حتمی طور پر ثابت نہیں ہوسکا کہ بعض افراد کے انگوٹھے کے جوڑ میں خرابی کیوں پیدا ہوجاتی ہے اور بعض کو نہیں ہوتی، لیکن بہت سے عوامل ہیں جو خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
پاؤں کی ساخت: پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں خرابی موروثی بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو پاؤں کی شکلیں اور میکانکس وراثت میں ملتے ہیں (جیسے کہ ڈھیلے جوڑ اور جوڑنے والے ٹشوز، چپٹے پاؤں اور کم خم) جو گَٹّا کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر پنڈلی کےسخت پٹھوں والے لوگ بھی زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
بعض بیماریاں، دائمی حالات اور چوٹیں: سوزش والی دائمی بیماریاں جو جوڑوں کو متاثر کرتی ہیں (جیسے کہ ریوماٹائڈ آرتھرائٹس اور اوسٹیو ارتھرائٹس)، گَٹّا کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں جبکہ اعصابی عوارض (جیسے کہ پولیو یا عضلاتی ڈسٹروفی) جن میں وہ مسائل شامل ہوتے ہیں کہ کس طرح اعصاب پٹھوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاؤں کی چوٹیں بھی اس خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔
حمل: حمل سے وابستہ ہارمونل تبدیلیاں ہڈیوں کو جوڑنے والی رگوں (ligaments) کو ڈھیلا اور پیروں کو چپٹا کر سکتی ہیں، جس سے پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں خرابی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
آپ کا پیشہ: ایسی نوکری کرنا جس کے لیے آپ کو سارا دن اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے یا جس سے پیروں پر اضافی دباؤ پڑتا ہے (جیسے کہ استاد، نرس یا سیلز مین وغیرہ)، اس سے گَٹّا ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
جوتے / چپل: تحقیق نے اس سوچ کو تبدیل کر دیا ہے کہ آپ جس قسم کے جوتے پہنتے ہیں اس سے پیروں کے انگوٹھےکے جوڑ میں خرابی پیدا ہوتی ہے (اگر دیگر خطرے والے عوامل نہیں ہیں)۔ لیکن ماہرین اب بھی کہتے ہیں کہ جوتوں کے انتخاب سے گَٹّا کی نشوونما یا خراب ہونے کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ اونچی ایڑیوں والی سینڈلز یا جوتے (کیونکہ وہ انگوٹھے اور انگلیوں پر اضافی دباؤ ڈالتے ہیں) اور آگے سے تنگ یا نوکیلے انداز وا والے جوتے پہننا ٹھیک نہیں ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ عوامل آپ کے خطرے کو بڑھانے کے لیے مجموعی طور پر کام کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، صرف اس وجہ سے کہ آپ اپنی ملازمت میں سارا دن اپنے پیروں پر کھڑے رہتے ہیں، اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو پیروں کا یہ مسئلہ درپیش آئے گا۔ مگر جن کے پاؤں چپٹے ہیں، وہ تنگ جوتے پہنتے ہیں، اور پاؤں میں گٹھیا ہے، تو ان کے پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں خرابی پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
مسئلہ کب بنتا ہے؟
اگر پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں خرابی محض ظاہری طور پر آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے کوئی تکلیف یا معذوری نہیں ہے تو آپ علاج کے بغیر ہی آرام کر سکتے ہیں۔ لیکن اس حالت پر نظر رکھنا ضروری ہے، خاص طور پر جب یہ پیروں میں درد کا سبب بنتا ہے یا آپ کی روزمرہ سرگرمی کو محدود کرتا ہے کیونکہ علاج نہ کیے جانے والا گَٹّا بدتر ہو جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، یہ پیروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے دیگر انگلیاں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، پیروں کے نچلے حصے میں کارن، انگوٹھے کے ناخن کا اندر کی طرف بڑھنا یا انگوٹھے کے جوڑ کی نچلی جانب جِلد کی سختی جیسے مسائل بھی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ مسائل یکجا ہوکر چلنے، ورزش اور معمول کی سرگرمیوں کو مشکل بنا سکتے ہیں۔ اگر پیچیدگیاں کافی شدید ہو جائیں، تو وہ معذوری کا سبب بھی بن سکتی ہیں اور عمر رسیدہ افراد میں بیٹھنے رہنے والے رویے میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
اس سے نہ صرف معیارِ زندگی میں کمی آتی ہے بلکہ دل کی بیماری، ٹائپ 2 ذیابطیس اور موٹاپے جیسے مسائل کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ علاج نہ کیے جانے والے گَٹّے پیروں کی دیگر پیچیدگیاں بھی پیدا کر سکتے ہیں، جیسے برسائٹس اور میٹاٹرسالجیا۔
آرام کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟
اگر آپ کو پاؤں کے انگوٹھے کا جوڑ باہر کی جانب نکلتا ہوا نظر آنا شروع ہو تو ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں جو چلنے اور کھڑے ہونے کو زیادہ آرام دہ بناسکیں۔ مثلاً چوڑے پٹے والے جوتے پہنیں، پھیلے ہوئے حصے کو پیڈ کرنے کے لیے جوتوں میں کشن لگائے جاسکتے ہیں یا بڑی اور دوسری انگلیوں کے درمیان اسپیسر رکھے جاسکتے ہیں۔ اگر درد برقرار رہتا ہے یا نقل و حرکت محدود ہوتی ہے، تو معالج سے مشورہ کریں۔ وہ حالت کو بہتر کرنے کے لیے اضافی طریقے تجویز کرسکتا ہے، جیسے:
٭ پاؤں کے کام کو کنٹرول کرنے میں مدد کے لیے آرتھوٹکس پہننا
٭ پیر کی سیدھ کو بہتر بنانے کے لیے رات کو اِسپلنٹ پہننا
٭ سوزش کو کم کرنے کے لیے برف لگانا
٭ پاؤں کے مخصوص پٹھوں کو کھینچنے اور مضبوط کرنے کے لیے فزیکل تھراپی، جس میں الٹراساؤنڈ تھراپی شامل ہو سکتی ہے
٭ انسداد سوزش ادویات لینا یا اینٹی سوزش انجیکشن لگوانا
سنگین صورتوں میں اگر باقی سب کچھ درد کو کم کرنے یا نقل و حرکت کو بہتر بنانے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو ڈاکٹر پاؤں کی سرجری تجویز کرسکتا ہے۔