• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

فضول باتوں پر درگت

منور مرزا پاک، بھارت تعلقات پرمدلّل حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کررہے تھے۔ ہمارے خیال میں تو موجودہ حالات میں حکومت کو ایسے قابل مشیروں کی اشدضرورت ہے، نہ کہ بےکار فوج ظفرموج کی۔ مگر ہماری حکومتوں نے مُلک و عوام کے لیے کچھ کرنا ہو تو وہ میرٹ پرلوگوں کاانتخاب کریں۔ اُنھیں تو بس چاپلوسوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمہ وقت ’’یس سر، یس سر‘‘ کرتے رہیں۔ محمّد کاشف جہادی تنظیم کی پسپائی کے پس منظرمیں گویادُہائیاں دےرہے تھے، لیکن ہمارےخیال میں تو اگر اسلامی ممالک اِس طرح خوابِ خرگوش کے مزے نہ لے رہے ہوتے، تو صورتِ حال مختلف ہوسکتی تھی۔

پتا نہیں، یہ مسلم ممالک کےحُکم ران ہیں یابےجان مورتیاں۔ شبانہ ایاز، ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات کی رُوداد لائیں اور دوحا کا سفرنامہ پڑھ کے تو ہم سوچتےرہ گئے کہ صفائی ہمارا بھی تونصف ایمان ہے۔ اگروہاں ہرشخص صفائی کواپنافرض اورعبادت سمجھتا ہے، تو ہم کیوں نہیں۔ ایڈیٹر صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ ؎ حُسن کے جانے کتنے چہرے، حُسن کےجانےکتنےنام… صحیح بات ہے، صرف ’’اسٹائل‘‘ صفحات ہی پرماڈل کے9 مختلف چہرے تو دکھائی دے گئے۔ مدثر اعجاز برطانوی دورِحکومت میں مسلمان زعماء کی اسلام دوستی اور آزادی کے لیے پُرخلوص کاوشوں کا تذکرہ لائے۔

ہمایوں ظفرکے مرتّب کردہ سلسلے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کابھی جواب نہ تھا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اِس بارقسمت کی دیوی تبسّم سلیم پر مہربان تھی۔ مبارکباں بھئی، مبارکباں۔ اگلے جریدے کا سرِورق بھی کمال تھا۔’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا کے طویل بحث مباحثے کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلامی دنیا کےہاتھ گویا بندھے ہوئے ہیں اور اُس نےمغربی طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں۔ ہمارے خیال میں سو فی صد درست فرمایا۔ رؤف ظفر کی سابق آئی جی، پنجاب ذوالفقار چیمہ سے تفصیلی گفتگوکا جواب نہ تھا۔ 

کئی اہم سلگتے معاشرتی موضوعات پر بہت کُھل کے بات کی گئی۔ نادیہ سیف کا افسانہ بھی بہت پسند آیا۔ واقعی، بڑےگھروہی ہوتے ہیں، جہاں بہوئوں کوبیٹیوں کی طرح رکھاجاتاہے۔ اورآخر میں’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی ونر ٹھہریں، عائشہ ناصر، جن کی آپ نےخاصی حوصلہ افزائی کی۔ 

پھر، بےکار ملک کا خط بھی شائع ہوا اور آپ نے فضول باتوں پراُن کی جودرگت بنائی، سچ میں پڑھ کےمزہ آگیا۔ بلاوجہ ہی اِدھر اُدھرکی ہانکتے رہتے ہیں۔ جو حضرات آپ کو الٹے سیدھے مشورے دیتے ہیں، اکثرمنہ کی کھاتے ہیں، مگر بازپھربھی نہیں آتے۔ ہاں، ضیاء الحق قائم خانی، شہزادہ بشیر نقش بندی، سید زاہد علی اور بابر سلیم کے خطوط اچھے تھے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو،ضلع مظفّرگڑھ)

ج: ہم تو شاید پھرکچھ لحاظ، مروت کرلیتے ہیں، ایسے لوگوں کی آپ جیسے قارئین زیادہ درگت بناتے ہیں، مگر وہ غالب نے کیا کہا تھا کہ ؎ گالیاں کھا کے بےمزہ نہ ہوا۔ تو کچھ لوگ واقعی کسی صُورت بے مزہ نہیں ہوتے۔

جس کا کھاؤ، اُسی کا گاؤ…

براہِ مہربانی آپ ہماری عزت کیا کریں۔ ہم کوئی معمولی آدمی نہیں، ہم ایک نواب زادے ہیں۔ یوں بھی ہمارے ساتھ بہت ناانصافی ہو رہی ہے۔ ہماری حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ ہمیں فوراً وزیرِ اطلاعات بنایا جائے۔ یقین مانیں، ہم حکومت کی ایسی چاپلوسی کریں گے کہ لوگ مریم اورنگزیب، رانا ثناء اللہ، شیخ رشید اور قمر الزماں کائرہ کو بھول جائیں گے، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے مفادات کے لیے حکومت کی چاپلوسی کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔

ویسے بھی ’’جس کا کھاؤ، اُسی کا گاؤ‘‘ بہترین پالیسی ہے اور اپنے مفادات کے لیے تھوڑا بہت جھوٹ بول لینا بھی غلط نہیں۔ یوں بھی منہگائی کے اس دَور میں پیسا ہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: قارئین سے درخواست ہے کہ اِس خط کا جواب، وہ اپنے آئندہ خطوط میں لکھ بھیجیں، کیوں کہ ہم میں اب مزید سر پھوڑنے، بِین بجانے کی ہمّت نہیں رہ گئی۔

میرٹ، میرٹ کا راگ

میں آپ سے سخت ناراض ہوں۔ اکثر قارئین بھی میری تائید کریں گے کہ مَیں کئی اخبارات میں مضامین اور رسالوں میں افسانے وغیرہ لکھتی رہتی ہوں، لیکن مَیں نے جب بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ میں کوئی افسانہ یا مضمون بھیجا، تو اُس کا کئی ماہ تک کچھ اتا پتا نہ ملا۔ دفترفون کرو، توکہا جاتاہے’’ہم ایسے نہیں بتاتے، باقاعدہ فہرست شائع کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر جب آپ کو خط لکھے، تو فوراً ہی ’’ناقابل اشاعت‘‘ کی فہرست شائع ہوگئی اور اُس میں ہمارا نام بھی آگیا، یہ سب کیا ہے آخر۔ تحریر کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کا تو پڑھتے ہی پتا چل جاتا ہے، توپھراتنا انتظارکیوں کروایا جاتا ہے؟ اپریل کے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ پر نظیر فاطمہ کےدو افسانے شائع کیے گئے۔ 

ایک طرف آپ صفحات کی کمی کا رونا روتی ہیں تو کیا یہ دوسرے لکھاریوں کے ساتھ زیادتی نہیں۔ یہ نظیر فاطمہ آپ کی رشتے دار ہے یا آپ کو افسانوں کی اشاعت کا معاوضہ دیتی ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ تو لگتا ہے کہ صرف طارق بلوچ صحرائی، کنول بہزاد اور نظیر فاطمہ کے لیے ہی مختص کردیا گیا ہے۔ کیا پاکستان بَھر میں ان تینوں کے علاوہ کوئی اچھا افسانہ نگار موجود نہیں۔ یہ جو آپ میرٹ، میرٹ کا راگ الاپتی ہیں، تو یہ میرٹ ہے آپ کا؟ یاد رکھیں، آپ ہمیشہ سنڈے میگزین کی ایڈیٹر نہیں رہیں گی۔ سو، اپنی اتھارٹی کا غلط فائدہ مت اُٹھائیں اور ہاں، مجھے یقین ہے کہ تم میرا یہ خط بھی ہرگز شائع نہیں کروگی۔ (صابرہ رفیق، حیدری، کراچی)

ج: بس بھئی، سب سے پہلے تو آپ کے’’یقین‘‘ ہی کی لٹیا ڈوب گئی۔ اور ہم خط کیوں شائع نہیں کریں گے۔ جس کی نیّت میں کوئی فتور ہو، نہ دل و دماغ، ہاتھ میلے ہوں، اُسے ایسے فضول، بے ہودہ الزامات کی بھلا کیا پروا۔ ہاں البتہ آپ ایک فرضی نام سے ضرور تشریف لائی۔ (درحقیقت لائے) ہیں، کیوں کہ ہمیں تو آج تک کسی صابرہ رفیق کی کوئی تحریر موصول ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی یہ نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شائع ہوا ہے۔ ہاں، البتہ یہ ہینڈ رائٹنگ ہم بخوبی پہچانتے ہیں، کیوں کہ اِسی ہینڈ رائٹنگ میں وقتاً فوقتاً کئی بے سروپا تحریریں وصول پاتی رہتی ہیں۔ 

نظیر فاطمہ کے دو افسانوں کی اشاعت کا جہاں تک سوال ہے، تو اُن سے بیش تر موضوعاتی افسانے باقاعدہ درخواست کرکےلکھوائےجاتےہیں اور وہ ہمیشہ تعاون بھی کرتی ہیں، تو ایسے لکھاریوں کی کوئی تحریر اگر کبھی صفحات کی کمی کے باعث، اشاعت سے رہ جائے، تو جگہ میسّر آنے پرترجیحاًشائع کی جاتی ہےاورکرنی بھی چاہیے کہ فی زمانہ کسی معاوضے کے بغیرخدمات پیش کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ 

آپ کی یہ بات درست ہے کہ کسی بھی تحریر کے غیرمعیاری ہونے کا پڑھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تحریریں پڑھی بھی باری آنے ہی پر جاتی ہیں کہ 16 صفحے کا منحنی سا جریدہ ہے اور لکھنےوالےاَن گنت (ہاں، مگراچھا لکھنے والے چند ایک)۔ رہی بات، ہمیشہ ایڈیٹر رہنے کی، تو ایم اے ایس صاحب! (صابرہ رفیق کی آڑمیں چُھپنا ہی تھا، تو خط کسی اور سے لکھوا لیتے) ہمیں کبھی ایک پَل کے لیے بھی ایسا کوئی زعم نہیں رہا۔ ہم تو بھائی، اُن لوگوں میں سے ہیں، جو روز کنواں کھودتے، روز پانی نکالتے ہیں۔

خدا جب حُسن دیتا ہے…

اللہ پاک آپ کو سدا شاد و آباد رکھے۔ خط کے ذریعے گویا آدھی ملاقات ہوجاتی ہے۔ مگر، پچھلے کئی ہفتوں سے ہمارے خطوط بھی شائع نہیں ہورہے۔ بہرحال، آپ کی بہت اُجلی تحریر ’’ہنس رہی ہیں اورکاجل بھیگتا ہےساتھ ساتھ…‘‘ پڑھ کے دل بہت شاد ہوا۔ آرزو لکھنوی کا شعر یاد آگیا۔ ؎ مزہ برسات کا چاہو، تو اِن آنکھوں میں آ بیٹھو… سیاہی ہے، سفیدی ہے، شفق ہے، ابرِ باراں ہے۔ بس، اب اس بڑھاپے میں ایک یہ ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی واحد سہارا رہ گیا ہے کہ جس سے دل خُوب ملتا ہے۔ 

سابق آئی جی، پنجاب، ذوالفقار احمد چیمہ کی ’’ گفتگو‘‘ بہت ہی پسند آئی۔ طویل انٹرویو انتہائی دل چسپی اور دل جمعی سے پڑھا گیا۔ آپ کی باتیں کسی حد تک کڑوی، تیکھی تو ہوتی ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ اِس معیار کا جریدہ بھی تو پورے پاکستان میں نہیں ملتا اور وہ کیا ہے کہ ؎ گلہ کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا… خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی، راول پنڈی)

ج: اسّی کا پیٹا کراس کرکے بھی آپ کی رنگین مزاجی کے کیاکہنے۔ مگر بزرگوار، ہر معروف شعر جگر مراد آبادی ہی کا نہیں ہوتا، جیسا کہ آپ نے دونوں اشعار کے ساتھ اُن ہی کا نام لکھ رکھا تھا (جوکہ ایڈٹ کردیا گیا) ایک شعر آرزو لکھنوی کا ہے اور دوسرا سرور عالم راز سرور کا۔ اور آپ کا جو بھی خط رتّی بھَر بھی قابلِ اشاعت ہوتا ہے، شائع کردیا جاتا ہے۔

اپنے مسائل سے نکلے، تو کچھ کرے

اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ ؎ یہ سحر جو کبھی فردا ہے، کبھی ہے اِمروز… نہیں معلوم کہ ہوتی ہےکہاں سے پیدا… وہ سحر، جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود… ہوتی ہے، بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی آمد نے تو موسم کے حُسن کو بھی چار چاند لگا دیئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’یہودی ریاست کے قیام کا قصّہ‘‘ کی پہلی قسط پڑھی، جس میں مسیحیوں کے روحانی پیشوا، یورپ اربن ثانی نے 1095ء میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کیا۔ 

جب تک سلطنتِ عثمانیہ موجود تھی، تو یہودیوں کو فلسطین میں رہائش کی بھی اجازت نہ تھی۔ اب یہ یہودی فلسطین پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمان بہن، بھائیوں پر اپنا رحم و کرم فرمائے اور ان ظالموں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے اسرائیلی جارحیت، ایران کی جوابی کارروائی، مڈل ایسٹ کی صُورتِ حال اور اِس ضمن میں پاکستان کے جذبات و احساسات سے آگاہ کیا۔ 

واقعی، اتنا بڑا اسلامی مُلک پاکستان، فلسطین کے لیےکچھ نہیں کرسکتا کہ اپنے مسائل سے نکلے، تو کسی کے لیے کچھ کرے ناں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود بھی غزہ کی تباہی وبربادی، فلسطینیوں کےقتلِ عام پر نوحہ کُناں تھے۔ ڈاکٹر محمّد افضل کیمانہ نے پختہ یقین کو کام یابی کی کلید قرار دیا، جب کہ خالدہ علی ڈائننگ ٹیبل پر ذائقےدارورائٹی لائیں۔ 

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تینوں ماڈلز خوش شکل و خوش لباس تھیں اور آپ کی لڑکیوں بالیوں کے بارے میں تحریر کا تو کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ رئوف ظفر کی ذوالفقار احمد چیمہ سے ’’گفتگو‘‘ بہت ہی فکرانگیز تھی۔ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر نے اچھا واقعہ پیش کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نادیہ سیف کے ’’رشتے ناتے‘‘ بھی خُوب تھی۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس بارعائشہ ناصرکےنام رہا۔ حسبِ روایت دیگر رنگا رنگ خطوط بھی مزے کے تھے۔ (ماہ نور شاہد احمد، میرپورخاص)

ج: ایک دادا کی پوتی، الیکشن2024ء میں سوشل میڈیا پرچھائی رہی اور اب ایک دادا کی پوتی (اطلاعات کےمطابق ماہ نور، شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی کی پوتی ہیں)’’آپ کا صفحہ‘‘ میں قدم جما رہی ہے۔ اچھا ہے، یہ سلسلہ بھی اچھا ہے۔

                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ماہِ اپریل کا شمارہ سامنے ہے۔ ؎ حُسن کے جانے کتنے چہرے، حُسن کے جانے کتنے نام… سُرخی نے فوراً ہی اپنی جانب متوجّہ کرلیا۔ سوچتی ہوں، آج کل تو ہر چہرہ ہی حسین ہے۔ اپنی دیکھ ریکھ کے ہُنر، دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگی اورمحض ایک اسمارٹ فون کے توسّط سے لگ بھگ ہر ایک کی فیشن کی دنیا تک رسائی نے گویا ہر دوسری عورت کو اس قدر باشعور کردیا ہے کہ اب وہ بہت ہی سہولت وآسانی کے ساتھ، اپنے ماحول کے مطابق خُوب سج سنور لیتی ہے۔ لیکن اس ضمن میں میراذاتی خیال ہے کہ ایک عورت کو محض کانچ کی گڑیا بنے رہنے ہی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، خاص طورپرمسلمان عورت کی زندگی کا مقصد بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ اس کی ذمّے داری نسلوں کی تربیت تک محیط ہے۔ 

اُسے بہرطور اپنی نسلوں کو اِس طرح پروان چڑھانا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات اور اسوۂ حسنہ پرعمل پیرا ہو، نہ کہ برق رفتار زمانے کی رو میں بہہ جائے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں پاک، بھارت تجارت بحالی کے امکانات پربہت عُمدگی سے روشنی ڈالی گئی۔ ویسے بھی، یہ تو طے شدہ بات ہے کہ نون لیگ کی حکومت جب بھی برسرِاقتدار آتی ہے، بھارت فیورٹ مُلک قرار پاتا ہے۔ اس بار ہماری دل چسپی کا اصل محور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ ٹھہرا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ غزہ کی تباہی و بربادی میں جتنا اسرائیل کی سفّاکیت کا دخل ہے، اُتنا ہی مسلم اُمّہ کی بےحسی کا بھی۔ 

حماس رہنمائوں نے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا، لیکن ہم جیسے لوگ بس ابابیلوں کے منتظر ہیں۔ مجاہدینِ غزہ کے لیے اقبال کا شعر یاد آرہا ہے۔ ؎ اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے… لڑا دے ممولے کو شہباز سے۔ (اگرچہ سفّاک لٹیروں، دہشت گردوں کے لیے ’’شہباز‘‘کی تمثیل قطعاً موزوں معلوم نہیں ہوتی، ہاں، اِنھیں بھیڑیئے سے ضرور تشبیہ دی جا سکتی ہے) ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر بھی ’’یہودیوں کی اسلام دشمنی‘‘ پورے سیاق و سباق کے ساتھ بیان کی جارہی ہے۔ ہمارا خیال ہے، یہود ونصاریٰ کے لیے نرم گرم گوشۂ محبّت رکھنے اوراُن کا اتباع کرنے والوں کی آنکھیں کسی قدر کُھل گئی ہوں گی۔

سفرنامہ ہمیشہ کی طرح بہت خُوب تھا، جو ہمیں بھی نئے جہانوں کی سیر پر اکساتا رہا۔ ’’متفرق‘‘ کے تحت مسلمانوں کی تعلیمی تحریکوں اوراُن کے اثرات سےآگاہی حاصل ہوئی۔ یعنی ہر دَور ہی میں اِس اُمت نےغیرکےتسلّط کےخلاف مزاحمت ضرور کی ہے اور کسی نہ کسی صُورت اپنی شناخت و بقا کے لیے جدوجہد بھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی دونوں تحریریں بھی خوب تھیں۔ ہاں یاد آیا، پچھلے چند شماروں میں بھی محمّد عمیر جمیل کی تحریریں پسند آئی تھیں، وہ کیا مثل ہے کہ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے بات‘‘۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: جی بے شک، ٹیلنٹ تو اِس مُلک میں خاصا ہے، بس، مثبت استعمال کی طرف رجحان کم ہےاورپھراللہ نظرِ بد سے بچائے، ہمیں ایک کے بعد ایک حُکم ران بھی ایسے نصیب ہوتے ہیں کہ جنھوں نے قسم کھا رکھی ہے، نوجوانوں کے بس جذبات ہی سے کھیلنا ہے، اُن کی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھانا۔ دنیا میں گنتی کے چند ممالک ہیں، جن کی مُلکی آبادی کی بڑی تعداد نوجوانوں پرمشتمل ہے،اور ہم اُن میں سے ایک ہیں۔ لیکن مُلکی حالات دیکھ کے لگتا ہے کہ شاید آبادی کی بڑی تعداد اپاہجوں، ذہنی و جسمانی معذورین پر مشتمل ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں قبائلی رسم ’’ونی‘‘ پر ایک کہانی لکھ رہی ہوں اور یہ سلمیٰ اعوان کے افسانے کے عنوان ’’بےشک، انسان خسارے میں ہے‘‘ سےمتاثر ہو کرلکھنا شروع کی ہے۔ مجھے ’’آپ کا صفحہ‘‘ اور حالات و واقعات‘‘کا صفحہ بہت پسند ہے۔ اس صفحے کے شان دار، مستند لکھاری، منور مرزا کو سلام پیش کرنا چاہوں گی۔ اُنہیں اکثر چینلزپربہت مدلّل اور نپی تُلی گفتگو کرتے بھی سُنا ہے۔ 

حیرت ہے، وہ آپ کے چینل پر کیوں نظرنہیں آتے، جب کہ دورِ حاضر کےکئی نام نہاد تجزیہ کاروں سےکہیں بہتر سوچ، اپروچ رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں تو وہ ایک جیّد صحافی ہیں اور آپ خاصی خوش قسمت کہ وہ آپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اپنے متعلق بتائوں کہ مَیں اُردو لکھنے، پڑھنےکی شوقین ہوں، اُمید ہے، میری تحریر دیکھ کر بھی آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔ (خدیجہ زہرا)

ج :کوئی حتمی رائے توتحریر دیکھنے کے بعد ہی دی جا سکتی ہےاور منور مرزا سے متعلق آپ کی رائے سے بھی ہم سو فی صد متفق ہیں۔ بلکہ اکثر سوچتے بھی ہیں کہ اِس مُلک کے ساتھ یہ کیسا المیہ، کیسا قحط الرجال ہےکہ ’’جوہری بھی ہیروں کے قدر شناس نہیں‘‘۔

* 21 اپریل کا رسالہ لحاف میں دبک کے پورا ہی ایک ساتھ پڑھ ڈالا۔ دوحا سے متعلق پڑھ کے ایک پرانی یاد تازہ ہوگئی کہ امریکا آتے ہوئے ہم بھی وہاں رُکےتھے۔ ماڈل کا گرین سیکوینس والا ڈریس بہت جچ رہاتھا۔ غزلیات میں ’’مَیں پرندہ ہوں‘‘ عجیب ہی سی شاعری تھی۔ اور ہاں، یہ زیادہ تر پیغامات اورنگی ٹاؤن، کراچی ہی سےکیوں آتے ہیں۔ 

ویسے میری زندگی کے بھی ابتدائی12سال وہیں گزرے۔ پوچھنا یہ تھا، کیا مَیں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ یا ’’اِک رشتہ‘‘ سلسلےکے لیے کسی کاغذ پہ خوش خط لکھ کے، اُس کی تصویر لےکے بھیج سکتی ہوں؟ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج: قرات!آپ’’آپ کاصفحہ‘‘کی بہت پرانی لکھاری ہیں اورپھر پردیس میں مقیم ہیں،آپ کو منع کرنا بھلا اچھا لگے گا۔ آپ جیسےبھیجنا چاہتی ہیں، بھیج دیں۔ اور ہمیں توجہاں سے بھی پیغامات آتے ہیں، ہم بعینہ شایع کردیتے ہیں۔ اورنگی ٹاؤن سے کیوں زیادہ پیغامات آتے ہیں، ہمارے خیال میں تو ہم سے زیادہ آپ بہتربتا سکتی ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk