امریکی ریاست میسوری کے کینساس سٹی میں رہنے والی خاتون کی پوری بتیسی ہی گل کر ختم ہوگئی تھی، جسے اسے دوبارہ لگوانا پڑا۔
کورٹنی لونا نامی اس خاتون کے 29 سال کی عمر میں تمام دانت خراب ہو کر گر گئے اور انہیں مصنوعی دانت لگوانے پر مجبور ہونا پڑا۔ جس پر انہوں نے 59 ہزار 900 ڈالر (تقریباً ایک کروڑ 66 لاکھ پاکستان روپے سے زائد) خرچ کر ڈالے۔
کورٹنی لونا کا کہنا ہے کہ بچپن سے ہی انکے دانت کمزور رہے ہیں، ان کے بچپن کے دانت سڑ کر ختم ہو گئے تھے اور بالغ دانت بھی اسی طرح نازک تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انہیں ڈینٹل اینیمل ہائپوپلاسیا کی تشخیص کی، جو ایک ایسی بیماری ہے جس میں دانتوں کا اینیمل کمزور یا بالکل نہیں ہوتا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کی بےتاب کوشش کرتے ہوئے کورٹنی نے ہر ممکن طریقہ آزمایا، جیسے بریسز لگوانا اور غذا میں تبدیلیاں کرنا وغیرہ، لیکن کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ "میری پوری زندگی درد، خطرناک انفیکشنز، بےخوابی کی راتوں اور آنسوؤں سے بھری رہی ہے، میں نے اپنی زندگی کے بہت سے گھنٹے ڈینٹسٹ کی کرسی پر گزارے ہیں۔ میں نے روٹ کنال، کراؤنز، فلنگز اور یہاں تک کہ بریسز بھی لگوائیں، جو بعد میں خرابی کی وجہ سے ہٹانے پڑے۔"
کورٹنی نے آخرکار فیصلہ کیا کہ وقت آ گیا ہے کہ وہ ایک بڑا قدم اٹھائیں کیونکہ ان کے دانت مسلسل گر رہے تھے اور کوئی دوا مدد نہیں کر رہی تھی۔
انہوں نے رٹین ڈینچرز اور کونوس-اسٹائل امپلانٹس کا انتخاب کیا۔ کورٹنی نے اب تک اپنے دانتوں پر 59 ہزار 900 ڈالر خرچ کر ڈالے۔
انہوں نے اس عمل کے دوران سائنوس لفٹ، ہڈی کی گرافٹنگ، اپنے اوپری دانتوں کی مکمل نکالنے اور چار امپلانٹ پوسٹس لگوانے کا سامنا کیا اور یہ سب کچھ مکمل بیداری میں کیا۔
کورٹنی نے اپنے اوپری دانتوں کا علاج مکمل کر لیا ہے کیونکہ دندان ساز نے انہیں علیحدہ علیحدہ ٹریٹ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب وہ اپنے نچلے دانتوں کو مکمل کرنے کےلیے بےتاب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "صحتیابی تکلیف دہ رہی ہے، لیکن بہر حال درست ہو رہی ہے، یہ ایک طویل عمل رہا ہے کیونکہ ہڈی کی گرافٹنگ کو سیٹ ہونے کی ضرورت تھی اور پھر میرے امپلانٹس بھی سیٹ ہونے میں وقت لیتے ہیں۔"