ارے کچھ سنا آپ نے ساجدہ آپا۔’’نمرہ دور سے بھاگتی ہوئی آئی ، سانس اس کا بے قابو ہو رہا تھا ۔ اس نے ساجدہ آپا کا بازو پکڑا اور تھوڑا جھک کر اپنا سانس درست کرنے لگی۔ ‘‘ کیا بات ہے نمرہ ، ایسی الٹی سیدھی کیوں بھاگی آرہی ہو؟ جلدی بتاؤ ، تمہارے بھائی باہر انتظار کر رہے ہیں دو مس کال آچکی ہیں، اب بھی شادی ہال سے باہر نہیں نکلی تو وہ مجھے چھوڑ کر جانے میں بھی دیر نہیں لگائیں گے۔’’ساجدہ آپا پریشان ہورہی تھیں ۔‘‘
جی جی بتاتی ہوں اور وہاں سے دوڑتی ہوئی صرف آپ کو بتانے ہی تو آرہی تھی ، راستے میں میرا پیر بھی مڑ گیا لیکن اس کے باوجود ۔۔۔‘‘ ’’ اف توبہ اب بتا بھی دو۔‘‘اسی دوران فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔’’یہ دیکھو،پھر مس کال آگئی ۔‘‘ وہ جھنجھلائیں ۔’’ بس باہر ہی آرہی ہوں ۔‘‘ انھوں نے دوسری طرف کی بات سننے سے پہلے ہی کہا اور جلدی سے فون بند کردیا۔
مبادا پھر ڈانٹ نہ سننی پڑ جائے ۔’’ بس اب تم کو جو بھی کہنا ہے نا صبح فون پر بتا دینا ۔‘‘ انھوں نے اپنی چادر سنبھالی ۔’’نہیں نہیں ابھی، اس نے منت سے انہیں چند گھڑی روکنا چاہا۔‘‘آپ کو پتا ہے وہ رشو باجی اور نوری باجی دونوں آپ کے مل کر جانے کے بعد اب وہ سو کی رفتار سے بولنا شروع کر چکی تھی ۔’’ کیسی کیسی باتیں کیں انھوں نے آپ کے متعلق، وہاں بیٹھی خواتین سے ،توبہ میری ، اتنا جھوٹ اور اتنا مبالغہ ۔۔۔۔۔‘‘نمرہ بولتی جا رہی تھی تو دوسری طرف ساجدہ آپا گم صم کھڑی سن رہی تھیں۔
ایک مرتبہ پھر گھنٹی بجی تو وہ جیسے ہوش میں آئیں ۔ ‘‘کیا تم کو باہر آنے کا راستہ نہیں مل رہا ؟، ایسا ہی ہے تو اپنے بھائی سے کہنا وہ چھوڑ دے گا ، میں جا رہا ہوں صبح مجھے دفتر بھی جانا ہے۔ دوسری طرف صاحب کی بس ہو چکی تھی، آرہی ہوں۔ انھوں نے دھیرے سے کہا اور پلٹ گئیں ۔ ’’ ارے ساجدہ آپا ابھی بات پوری کہاں ہوئی ہے۔‘‘ لیکن ساجدہ آپا تھکے ہوئے قدموں سے باہر نکل چکی تھیں۔ واپسی کا راستہ جیسے تیز آندھیوں کی زد میں تھا۔
ایک طرف صاحب کی ناراضی تو دوسری جانب ان کا دل ودماغ ان کے قابو میں نہیں تھا ، انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان دونوں نے ان کے متعلق ایسا کیاکہا ہے ، وہ ساری رات یہی سوچتی رہیں کہ ایسا کہاں کیوں ؟اور کس لیے ان کو موضوع گفتگو بنایا گیا اور غلط بیانیاں کی گئیں۔ سارا راستہ مختلف سوچیں حاوی رہیں ، گھر جاکر وہ بے دم سی ہو چکیں تھیں۔ چند جملے؟لیکن ان چند جملوں نے کسی کی زندگی کو زیر و زبر کر دیا تھا۔
سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ ،اس طرح کتنی ہی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے ۔یہ کہنے والے بلکہ بے لگام کہنے والے کیا جانیں ، ان کی زبان کی کترنیں کیا گل کھلا تی ہیں ۔ جب ہم خود متاثرین کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں تو تب ان الفاظ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ نوکیلے ، کڑوے، تلخ، مانند خنجر الفاظ، جو انسان کی رگ رگ میں چرکے لگاتے ہیں، جن سے لہو نہیں بہتا بلکہ سانسیں رک رک جاتی ہیں۔
ہم نے لوگوں کے درمیان نفرتوں کی فصیلیں کھڑی کرنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے، جس سے پیسہ تو نہیں ملتا لیکن مزہ بہت آتا ہے ، نہ جانے کیسا سکون قلب پوشیدہ ہے ،جو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ گویا کہ ہم دل ملانے کے بجائے دل توڑنے میں پیش رفت رکھتے ہیں۔ تعلقات و رشتے داریاں نبھانا چھوڑ کر ان کے درمیان بڑی بے دردی سے اونچی دیوار چن دیتے ہیں ، تاکہ جو جہاں ہے وہ وہیں رک جائے۔ کوئی روزن بھی نہیں چھوڑتے کہ کہیں یہ روشنی کا رستہ نہ بن جائے۔ دلوں میں نفرت کی ایسی چنگاری لگاتے ہیں ،تاکہ پھر مزے سے آگ بھڑکنے کا تماشا دیکھیں۔
گہرا تاریک دھواں پھیلے گا تو خبر بھی سب کو ہوگی اور پانی ڈالنے کی فکر کسے ہوتی ہے۔ یہ ہمارے تکلیف دہ رویے جو صرف چند انچ کی بغیر ہڈی والے ٹکڑے کی کارستانی ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ اس سے وہ کام لیا جائے جو دلوں کو دکھائے ؟اگر کچھ تعمیر ہی کرنا ہے تو مضبوط دیواریں اور پل بنائیں۔
دو افراد کے درمیان، دو خاندان کے درمیان اور دو دوستوں کے بیچ، محنت اتنی ہی لگے گی، وقت بھی اتنا ہی خرچ ہوگا۔ لیکن نتیجہ سو فی صد اس کے برعکس، پل بنانا شاید تھوڑا مشکل ہو لیکن یہ کام بڑا سود مند ہے۔ کہتے ہیں آپ جو لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں وہی آپ کو کئی گنا ضرب ہو کر ملتا ہے۔
لہٰذا خوشیاں بانٹیے، تاکہ وہی لوٹ کر آپ کے پاس آئیں اور ایک نہیں بلکہ ضرب کے اصول کے مطابق، یہ جمع، تفریق، تقسیم اور ضربِ کے اصول صرف ریاضی کی کتابوں میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔لیکن یہاں معاملہ کچھ مختلف بھی ہوتا ہے۔ یہاں اطمینان قلب مل بیٹھ کر چلنے میں ہے۔
دلوں میں کشیدگی کو نہیں، بلکہ کشادگی کی پکی سڑک بنائیں اور کوشش کریں کہ دو رویہ بنائیں ، لوگ آسانی سے آئیں اور جائیں، ان کی تکلیف کا سبب بننے کے بجائے آسانیاں تقسیم کرنے والے بنیں۔ ہم جو دوسروں کے لیے پسند کرتے ہیں، رب کریم وہی اپنے بندے کے لیے پسند کرتا ہے۔
بندہ مومن جب کسی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتے دعا کرنے والے کے حق میں اسی دعا کی اللہ سے سفارش کرتے ہیں۔ بڑا اچھا اور آسان سودا ہے۔ ہم تو ویسے بھی دنیاوی فوائد کے تاجر ہیں تو کیوں نہ ساتھ اخروی سوداگری بھی کرلیں۔؟