جگر کی سوزش، یعنی’’ INFLAMATION ‘‘کو’’ ہیپاٹائٹس‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ مرض کسی فرد کو صرف وائرس ہی کے ذریعے لاحق ہوتا ہے۔نیز، جہاں کہیں ہیپاٹائٹس سے متعلق بات ہو رہی ہو، تو وہاں عموماً اِس کی بی اور سی جیسی اقسام ہی زیرِ بحث ہوتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مرض وائرس کے ساتھ، مختلف جڑی بوٹیوں اور شراب نوشی سے بھی لاحق ہو سکتا ہے۔اِس ضمن میں مشرق و مغرب واضح طور پر منقسم ہیں۔ مغرب میں ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کا سبب شراب نوشی ہے، تو مشرق میں یہ وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے، جب کہ ہیپاٹائٹس کی ہر قسم کا اختتام جگر کے سکڑنے ہی پر ہوتا ہے۔
وائرس کے ذریعے پھیلنے والی اقسام میں سب سے نمایاں ہیپاٹائٹس اے ہے، جس کا وائرس انسانی جسم میں منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔یعنی پانی یا خوراک وغیرہ سے۔ ہماری آبادی کا تقریباً نوّے فی صد حصّہ بچپن ہی اِس مرض کی لپیٹ میں آجاتا ہے، جس کی واضح علامات میں بخار، قے، بھوک نہ لگنا اور زرد پیشاب کے ساتھ یرقان ظاہر ہونا شامل ہیں۔ یہ وائرس فضلے سے خارج ہوتا ہے اور دیگر بچّوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
اس کا دورانیہ تقریباً 6 سے 8ہفتے پر مشتمل ہوتا ہے، جس کے بعد یہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ یہ عموماً2 سے 8سال تک کی عُمر کے بچّوں میں عام ہے اور ایک بار لاحق ہونے کے بعد زندگی میں دوبارہ نہیں ہوتا، البتہ اگر کوئی بچپن میں اِس سے محفوظ رہے، تو پھر زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر یہ ضرور لاحق ہوتا ہے اور اِس صُورت میں یہ پیچیدگیوں کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
گو کہ یہ ایک خود بخود ختم ہونے والی بیماری ہے، لیکن پھر بھی لوگ متاثرہ بچّوں کو دَم درود یا تعویذ گنڈوں کے لیے اُٹھائے اُٹھائے پِھرتے ہیں، جب کہ طرح طرح کے ٹوٹکے بھی آزمائے جاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یرقان سے متعلق عام تصوّر یہی ہے کہ جھاڑ پھونک یا ٹوٹکوں کے ذریعے اِس سے نجات ممکن ہے، لہٰذا جب کوئی اِس مرض میں مبتلا ہوتا ہے، تو وہ سب سے پہلے اتائیوں یا جھاڑ پھونک والوں ہی سے رجوع کرتا ہے۔
بعدازاں، یہ افراد مرض بڑھنے یا بگڑنے ہی کی صُورت میں ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں۔ دراصل، ہیپاٹائٹس اے کی علامات بہت ہی واضح ہوتی ہیں، تو ہر شخص ،متاثرہ فرد کی شکل دیکھ کر ہی اُسے یرقان زدہ قرار دے دیتا ہے اور ساتھ ہی کسی بابا کی لمبی چوڑی کہانی سُنا کر اُس کا پتا بھی بتا دیتا ہے۔یاد رہے، ہیپاٹائٹس اے اور بی کا حفاظتی ٹیکا موجود ہے، جسے لگانے کے بعد اِن دونوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی ایک خطرناک وائرس ہے اور اسے’’ بچّوں کا قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ماں سے بچّے میں منتقل ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ہر حاملہ خاتون کا ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، لیکن اِس ٹیسٹ کے نتائج کو سمجھنا اور اس پر رائے دینا آسان کام نہیں۔عام طور پر اِس ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھتے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ’’ آپ کو ہیپاٹائٹس بی یا سی ہے۔‘‘
چوں کہ ہیپاٹائٹس کے مرض سے عجیب طرح کا خوف و ہراس بھی وابستہ ہے، تو یہ بات سُنتے ہی مریض پر سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی کوالی فائڈ ڈاکٹر یا کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کرتا ہے اور وہاں اُسے بتایا جاتا ہے کہ یہ شاید آپ کو ہوا تھا، تب بھی مریض پر ایک اَن جانا خوف طاری رہتا ہے اور وہ یہ بات سمجھنے سے نہ صرف قاصر ہوتا ہے بلکہ خُود کو ہیپاٹائٹس کا مریض ہی تصوّر کرنے لگتا ہے۔واضح رہے، اب وہ زمانے چلے گئے، جب یرقان کا علاج نہیں ہوتا تھا، اب اِس کا یقینی علاج موجود ہے۔
البتہ، اِس کا انحصار اِس امر پر ہے کہ مریض کس مرحلے پر ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔اگر ہیپاٹائٹس بی اور ڈی ایک ساتھ موجود ہوں، تو علاج میں دقّت ہوتی ہے اور مریض کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کا علاج ادویہ سے ہوتا ہے اور ہیپاٹائٹس ڈی ہونے کی صُورت میں انجیکشنز بھی لگائے جاسکتے ہیں۔یہاں ڈاکٹر صاحبان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہیپاٹائٹس بی کے وائرس کی موجودگی اِس بات کی دلیل نہیں کہ آپ فوراً علاج شروع کردیں، بلکہ اِس طرح کے وائرسز کی ایک خاص تعداد ہونی ضروری ہے۔
اگر ماں ہیپاٹائٹس بی کی مریضہ ہے، تو نومولود کو زندگی کے پہلے ہفتے میں بچاؤ کے ٹیکے کے ساتھ ایک اور منہگا ٹیکا بھی لگایا جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی بھی انسانی جسم میں اُن ہی ذرایع سے داخل ہوتا ہے، جن سے بی ہوتا ہے۔ یہ دونوں وائرسز جسم میں منہ کے ذریعے داخل نہیں ہوتے۔
ان کے انسانی جسم میں داخل ہونے کے اہم ذرائع میں جسم پر موجود زخم، ہر قسم کی جرّاحی، شیونگ بلیڈز، دندان سازی، ناک کان چِھدوانے اور آنکھ کا موتیا گرانے کے آلات (جو بلوچستان میں عام ہیں) وغیرہ شامل ہیں، جب کہ اب کنگھی کو بھی اِس فہرست میں شامل کیا جانے لگا ہے۔
نیز، جنسی بے راہ روی بھی ہیپاٹائٹس بی اور سی کا بڑا سبب ہے۔یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ ہیپاٹائٹس بی کی مانند سی کے وائرسز کی بھی ایک خاص تعداد جسم میں ہو، تب ہی اس کا علاج ضروری ہے، بصورتِ دیگر مریض اپنی مزاحمت ہی سے اس مرض پر قابو پالیتا ہے۔ ANTI HCV ٹیسٹ صرف یہ بتاتا ہے کہ آپ اس کے مریض ہیں یا یہ بیماری ختم ہوچُکی ہے، لیکن ٹیسٹ میں موجود رہے گی۔
نیز، اس کا مقدار کی اونچ نیچ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، حالاں کہ اِسی مقدار کی بنیاد پر اتائی، مریضوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔یاد رہے، ہیپاٹائٹس سی کا بھی مکمل علاج موجود ہے اور اب انجیکشن نہیں لگوانے پڑتے، صرف گولیاں استعمال کی جاتی ہیں، جن کی مدد سے90 سے95 فی صد تک نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ اس علاج کا دورانیہ عموماً3سے6ماہ تک ہوتا ہے۔ یہ دوا پاکستان میں کافی سستی مل رہی ہے۔
ہیپاٹائٹس اِی کا وائرس کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے ہمارے پیٹ میں داخل ہوتا ہے۔یہ حاملہ خواتین کو خاص طور پر شکار کرتا ہے اور ان میں اس کے سبب اموات کی شرح 20 فی صد تک ہے۔ اِسی وجہ سے اسے’’ماؤں کا قاتل‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد جگر کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے۔ اِس کا علاج قدرے مشکل ہے، خاص طور پر حاملہ عورتوں میں تو بہت ہی مشکل۔
اِن وائرسز کے علاوہ بھی ہیپاٹائٹس کے بہت سے وائرسز ہوتے ہیں اور اِن کا اختتام جگر میں دائمی سوزش یعنی’’ Cirrhosis‘‘ہی پر ہوتا ہے۔مشاہدہ یہی ہے کہ عام لوگوں کو صرف Cirrhosis ہی کے مریض دِکھائی دیں گے، جن کے پیٹ میں پانی بَھر جاتا ہے یا پیروں پر سوجن وغیرہ آجاتی ہے، یعنی یہ اس مرض کی صرف آخری تصویر ہی دیکھتے ہیں اور اُن کے دِلوں میں ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متعلق خوف بیٹھ جاتا ہے، جب کہ بی یا سی عموماً اُس وقت ظاہر ہوتے ہیں، جب وہ کوئی ٹیسٹ کروائیں، ملازمت کے لیے مِڈل ایسٹ وغیرہ جائیں یا پھر کسی کوخون دینا ہو،لیکن ذہن میں بنی تصویر اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔
لہٰذا، پہلے تو وہ اِس ٹیسٹ کو ماننے ہی سے انکاری ہوجاتے ہیں اور دوبارہ ٹیسٹ کروانے چل پڑتے ہیں۔ ایک بار پھر واضح رہے کہ بہت سی جڑی بوٹیاں، ادویہ اور شراب نوشی بھی ہیپاٹائٹس کا سبب ہیں اور اس کا اختتام جگر کے سکڑنے ہی پر ہوتا ہے۔ ( مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)