• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
ٹوری پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث جہاں ایک سال کے اندر چار وزرائے اعظم تبدیل ہوئے اور حکومت لوگوں کی غیرقانونی انٹری روکنےمیں ناکام ہو رہی تھی اور جہاں وزیراعظم کو اپنی پالیسیاں منظور کروانے میں دشواریاں پیش آرہی تھیں اور طویل عرصہ سے لیبر اپوزیشن 15-20پوائنٹس کی سبقت لئے ہوئے تھی اور جہاں معتبر اخبار The Times اور The Sunday Times دونوں لیبر حمایت میں پیش پیش تھے ان حالات میں لیبر پارٹی کی کامیابی یقینی تھی۔ عموماً معتبر خبروں اور تبصروں کیلئے پرائم منسٹر سے لے کر ایک عام آدمی تک The Times اور Sunday Times کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہاں سے اسے جو کچھ مل پاتا ہے اسے وہ اپنے معاملات میں رہنمائی کیلئے استعمال کرتے ہوئے آگے چل پڑتا ہے۔ یہ دونوں اخبارات مشہور زمانہ پبلشر Rupert Murdock ایمپائر کی ملکیت ہیں جن کے امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی اخبارات اور نیوز چینلز ہیں۔ لمبی تمہید کا مقصد ان دو برطانوی اخبارات کے مقام کا تعین کیلئے زمین ہموار کرنی تھی۔ برطانوی اخبارات میں یہ دونوں اخبار بلند ترین مقام پر موجود پائے جاتے ہیں۔ دونوں اخبارات سنٹر رائٹ سیاست کو ہمیشہ سے سپورٹ کرتے آرہے ہیں۔ 4جولائی کے انتخابات سے کم و بیش چھ ماہ قبل لیبر پارٹی رائے عامہ کے تجزیوں میں کنزرویٹو حکومت پر سبقت لیتی نظر آئی اور حکومت کے کئی اہم اعلانات جن میں نیشنل انشورنس ٹیکس میں 2% کی کمی، غیر قانونی تارکین وطن (بوٹ پیپل) کی برطانیہ آمد کو روکنا اور روانڈا کے ساتھ غیرقانونی تارکین وطن افراد کیلئے معاہدہ کرنا شامل تھے بھی حکومت کا گراف اوپر نہ اٹھا سکے۔ ایک مفلوج حکومت کے دورانیہ میں بھی تمام اخبارات نے میانہ روی کی رپورٹنگ جاری رکھی۔ ایک وقت آیا جب ان بڑے اخبارات نے بھی عوامی موڈ کے سامنے کنزرویٹو حکومت پر تنقید بڑھا دی۔ جس کی ایک مثال 30جون کو ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کا سترہ سو الفاظ پر مشتمل اداریہ ہے کہ ’’ٹوریز نے اپنا حکومت کرنے کاحق گنوا دیا ہے جو اب لیبر کو منتقل ہو گیا ہے‘‘ کی شہ سرخی سے کیا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ انتخابات نہایت کم جوش و خروش کے ماحول میں ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات میں پرائم منسٹر رشی سوناک مایوس کن سیاسی رہنما کے طور پر نظر آئے اور ان کی جماعت سیاسی منظرعام پر ہچکولے کھاتی پائی گئی۔ یہ اخبار آگے چل کر دونوں بڑی جماعتوں کے انتخابی منشوروں پر بات کرتے ہوئے ’’انسٹیٹیوٹ برائے فسکل اسٹڈیز‘‘ کی اس تشریح کی حمایت کرتا ہے کہ دونوں منشور ’’خاموش سازش۔ Conspiracy of Silence‘‘ کی تصویر ہیں کیونکہ دونوں ’’پبلک فانینسنگ‘‘ پر بات نہیں کرتے۔ تمام انتخابات اہم ہوتے ہیں مگر یہ انتخاب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹوریز ایک تھکی ہوئی جماعت ہے جو ملک چلانے کی اہلیت کھو چکی ہے۔ لہٰذا ہم تبدیلی (جو لیبر کا نعرہ ہے) کو اپنی سپورٹ دے رہے ہیں۔4 جولائی کے اخبار The Times نے اپنے پورے ایک صفحہ کے ایڈیٹوریل میں اپنے لئے ’’اندھیرے میں چھلانگ‘‘ کی شہ سرخی لگا کر لیبر کو آدھے اعتماد کا ووٹ دیا ۔ ناچیز نے اپنی طویل برطانوی زندگی ان جڑواں اخبارات کو اس انداز میں لیبر پارٹی کو سپورٹ کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ دونوں ایڈیٹورلز کا لب و لہجہ صاف بتا رہا ہے کہ ایڈیٹرز کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ لیبر پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں بقول چرچل "Events My Der Evnets" ۔7 مئی کو شائع ہونے والے ’’دی سنڈے ٹائمز‘‘ نے اپنی اشاعت میں وزیراعظم سرکیئر سٹارمر کو یاد کرایا ہے کہ ملک کو امیگریشن سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اخبار سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے بیان کو چھاپتا ہے اور لارڈ مینڈلسن کے بیان کو بھی شائع کرتا ہے۔ دونوں نے سٹارمر حکومت کیلئے اچھے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ برٹش میڈیا نے پہلی کابینہ میٹنگ جس میں ابھی تک صرف برمنگھم کی ایم پی شبانہ محمود جو وزیر انصاف بنی ہیں اور پاکستان نژاد ہیں کو بھی اچھی کوریج دی ہے۔ اس بار لیبر پارٹی کی بھاری اکثریت کے باعث وزیراعظم کیلئے کوئی مجبوری نہیں ہے کہ انہوں نے مسلمان اور دیگر اقلیتی ارکان پارلیمنٹ کو کابینہ میں ضرور جگہ دینی ہے۔ جہاں لیبر کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے وہاں ان ووٹرز جنہوں نے لیبر کو ووٹ نہیں دیا حالانکہ ماضی قریب تک وہ لیبر ووٹرز تھے کے لئے امید ہے پارٹی دروازے کھلے رکھے گی۔ اس الیکشن نے کئی انتخابی برج الٹ دیئے ہیں وہاں لبرل لیڈر (71سیٹس) سر ڈیوی اور نائیجل فراج کی شکل میں مزید حقیقتیں بھی ابھری ہیں۔
یورپ سے سے مزید