اسلام آباد (مہتاب حیدر) روس کی جانب سے پاکستان او ر بھارت کو پائپ لائن کے ذریعے ایل این جی فراہم کرنے کی روسی پیشکش کے دوران اسلام آباداپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کےلیے اربوں ڈالر کی ڈیل کے مختلف آپشنز پرغور کر رہا ہے۔ لیکن یہ ڈیل صرف اسی وقت ممکن ہوسکے گی جب پاکستان امریکی پابندیوں سے بچ نکلنے کا کوئی حل تلاش کر سکے۔ مطالعاتی کام مصدق ملک کو سونپا گیا ہے.
ذرائع کے مطابق اسلام آباد روسی منصوبے کو بغیر امریکہ کو ناراض کیے مکمل کرنا چاہتا ہے، روسی صدر ولادی میر پوتن نے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر الگ سے حال ہی میں ملاقات کی اور کہا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان ایل این جی پہنچانے کےلیے گیس پائپ لائن کی تعمیر کےلیے تیار ہیں جسے بعد میں بھارت سے منسلک کر دیاجائےگا۔
اب مختلف وزارتیں اس حوالے سے اپنا داخلی ابتدائی کام کر رہی ہیں اور وزیرپٹرولیم مصدق ملک کو اس سلسلے میں مطالعاتی کام سونپا گیا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے روس اور ایران پر لگائے جانے والی پابندیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی قابل عمل آپشن کے ساتھ آئیں۔
ایک اعلیٰ ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پاکسان اور روس کی باہمی تجارت محض 800 سے 900 ملین ڈالر سالانہ ہے اور آنے والے برسوں میں اسے اس کے حقیقی پوٹینشل تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔
پاکستان کی تمام متعلقہ وزارتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ متعلقہ علاقائی اور بین الاقوامی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے تجارت کو 20 سے 25 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کیلیے کوئی قابل عمل حل تلاش کریں۔ فی الوقت یہ ایک دور کی خواہش لگی ہے لیکن آنے والے برسوں میں اس کے بھاری بھرکم امکانات استعمال ہوبھی سکتے ہیں۔
روس یوکرائن جنگ کے بعد روس کی یورپی ممالک سے تجارت 70 فیصد گرگئی ہے اور اور جنوبی ایشیا سمیت نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ ر
وسی صدر پوٹن نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی ہے جس کے بعد پاکستان روس اور ایران سے ایل این جی کی درآمد کی پیشکش پر بہت کام کر رہا ہے ۔اس حوالے سے مختلف روٹس زیر غور ہیں۔