• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کہتے تھے فون ٹیپنگ ہونا چاہئے، آج PTI غلط کہہ رہی ہے، رانا ثناء

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ فون ٹیپنگ کے معاملے میں عمران خان بھی تو یہی کہتے تھے کہ ایسا ہونا چاہئے پھر آج کیسے پی ٹی آئی والے اس کو غلط کہہ رہے ہیں،میری نظر میں تو بہتر یہ ہے کہ یہ سب کچھ لیگل کور میں ہو اور جو کرے پھر وہ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرے.

 سینئر رہنما پاکستان تحریک انصاف سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارا تمدن ہمارا دین تو ہم کو یہی کہتا ہے کہ ہم کسی کے گھر میں نہیں جھانک سکتے ریاست کا یا خلیفہ وقت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کے گھر میں جھانکے،ہم نے فون ٹیپنگ کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بالکل عندیہ دیا ہے کیونکہ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں ہر ذی شعور اس معاشرے میں جس کسی کا بھی آزادی اظہار سے انسانیت کی تکریم سے تعلق ہوگا بالکل وہ اس کو چیلنج کرے گا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آئی ایس آئی کا افسر یہ طے کرے گا کہ جو ہماری گفتگو ہے وہ قومی سلامتی کے حوالے سے حساس ہے یا نہیں اس کو نہ کسی قانون کی ضرورت نہ مجسٹریٹ کی ضرورت اور نہ ہی کوئی وجہ بتانے کی ضرورت وہ خود اپنے تئیں ہی فیصلہ کرے گا کہ میری او رآپ کو جو گفتگو ہے وہ قومی سلامتی کے حوالے سے حساس ہے اور اس لئے وہ اس کو سنے گا۔

مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بالکل کابینہ کے ارکان کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ اپنی وزارت پر توجہ دیں تساہلی نہ برتیں کیونکہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ہم نے ٹارگٹ مقرر کردیئے ہیں جن کو ہم ہر قیمت پر پورا کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالیں گے وزیراعظم اپنی کابینہ سے مطمئن ہیں تاہم ان کو اپنی تقریر میں یہ کہنا تھا کہ وہ عوام کے مسائل پر کسی قسم کی بھی وزراء کی تساہلی کو برداشت نہیں کریں گے ۔

مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ فون ٹیپنگ کی جو اجازت دی گئی ہے اس میں یہی لکھا گیا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کی تحفظ کے لئے کوئی بھی ادارہ جو ہے وہ گفتگو کو سن سکتا ہے ،عمران خان بھی تو یہی کہتے تھے کہ ایسا ہونا چاہئے پھر آج کیسے پی ٹی آئی والے اس کو غلط کہہ رہے ہیں ۔ 

اس بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بجائے اس کہ کہ یہ چیزیں جو ہیں اگر بلااجازت ہورہی تھیں اور پھر پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس نے یہ ٹیپ کیا جو لیک ہوگئی ہے لیکن اب اگر کوئی اس کی ٹیپ کی ذمہ داری لیتا ہے تو وہ واضح بھی کرے گا کہ اس آڈیوکو ٹیپ کرنے کا اس کا مقصد یہ تھا پھر عدالت کا کام ہے اس مقصد کو دیکھنا ۔میری نظر میں تو بہتر یہ ہے کہ یہ سب کچھ لیگل کور میں ہو اور جو کرے پھر وہ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ اگر ریاست کو کسی پر شک ہوتا ہے کہ وہ ایسے کسی جرم کا مرتکب ہورہاہے جس سے قومی سلامتی کو خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ اپنا اختیار استعمال کرسکتا ہے ۔

اہم خبریں سے مزید