• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملٹری کورٹ کیس، ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کیا جائے، سپریم کورٹ

اسلام آباد (رپورٹ ، رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ میں 9مئی 2023کی شر پسندی اور دہشت گردی کے و اقعات میں ملوث 103 سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں سے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کے سپریم کورٹ کے سابق فیصلے کیخلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی.

 انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فوج کی زیر حراست ملزمان کیساتھ غیر انسانی سلوک کی شکایات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کو ہر ہفتے ملزمان کی ان کے اہلخانہ کی ملاقاتیں کروانے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریما رکس دئیے ہیں کہ ملزمان کیساتھ انسانوں کی طرح کا سلوک کیا جائے فاضل جج نے استفسار کیا ہے اگر ملزمان کا جسمانی ریمانڈ ختم ہو گیا تو وہ جیل میں کیوں نہیں ہیں؟ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے .

جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا ہے کہ انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے ،دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا زیادہ وقت تو شکایات پر ضائع ہوجاتا ہے، آپ نے پہلے بتایا تھا کہ ہر ہفتہ ملزمان کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات ہوتی ہے، اب آپ ملزمان کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری کیوں نہیں رکھتے ہیں؟عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں ،جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کے حکم پر عملدرآمد کی یقین دہانی کر اتے ہوئے کہا کہ آج حفیظ اللہ نیازی اوران کے اہلخانہ کی انکے بیٹے سے ملاقات مقرر ہے.

دوران سماعت وزارت دفاع کی جانب سے خواجہ حارث احمد ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ایف بی علی کیس میں سپریم کورٹ آرمی ایکٹ کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اسے ایک درست قانون قرار دے چکی ،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندو خیل ،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی ،جسٹس شاہد وحید ،جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی۔

ملزمان کے ایک وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ فوج کے زیر حراست ایک ملزم کا پانچ سالہ بیٹا فوت ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اس کے اہلخانہ سے ملاقات تک نہیں کرنے دی ، جسٹس شاہد وحید نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ساتھی جج کی رائے سے ہٹ کر بتائیے کہ انٹرا کورٹ اپیل کا سکوپ کیا ہے؟کیا اس میں عدالت الگ رائے قائم کرسکتی ہے،یا صرف کیس کوریمانڈ ہی کرسکتی ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر اسی طرح ہی کیس چلائیں گے تو دو سال لگ جائیں گے ،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کیس کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا الگ نوٹ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل کا مقصد متاثرہ فریق کو اپیل کا فورم فراہم کرنا ہے.

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عدالت کا اختیار کیا ہے؟کیا اصل فیصلہ واپس کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟جسٹس شاہدوحید نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اگر انٹرا کورٹ اپیل میں عدالت نے الگ رائے قائم کی تو اس کیلئے اصل فیصلے کو کالعدم کرنا پڑے گا،اٹارنی جنر ل نے کہا کہ اصل فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے.

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کی ممکنہ رائے کیا ہوگی؟ اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا لیکن اگر پہلے سے ذہن بنا کر بیٹھے ہیں تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ عدالت کی ممکنہ رائے کیا ہوگی؟جب اپیل کی سماعت ہوگی تو فیصلہ ریما نڈ بھی ہوسکتا ہے،جسٹس جمال خان نے کہا کہ سوال پھر وہی ہے کہ کیا انٹرا کورٹ اپیل میں ایک رائے کو دوسری رائے سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب تک قواعد نہیں بن جاتے ؟اس و قت تک انٹرا کورٹ اپیلوں کو سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں ہونا چاہیے لیکن کئی اپیلیں مقرر ہوکر ،ان کے فیصلے بھی ہوگئے۔

اہم خبریں سے مزید