کراچی (ٹی وی رپورٹ) معاشی ماہرین اور اہم کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ ٹیکس، مہنگی بجلی، سیاسی عدم استحکام بڑے مسائل ہمارے معیشت کے بڑے مسائل ہیں، تنخواہ دار پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، زرعی ٹیکس کے ذریعے ریلیف دینا چاہئے، باہر جانے والوں روکا نہیں جاسکتا، سیاستداں ناکام ہوچکے، شرح ترقی 2ڈھائی فیصد رہی گی، بیرونی سرمایہ کاری فائدہ مند نہیں، سیاستدان بالکل ناکارہ ہیں کبھی اپنے طور پر ریفارم کا فیصلہ نہیں کر پاتے،تنخواہ داروں پر ٹیکس کا مزید بوجھ کا مطلب ہنر مند ملک سے ہجرت کر جائیں، بجٹ کی سمت درست ہے، تین چار سال میں بہتری آئے گی ،اس ٹیکسیشن رجیم اور شرح سود پر سرمایہ کاری کا کوئی امکان نہیں ہے، ٹیکس سلیب بڑھنے کے بعد لوگ کیش میں تنخواہیں لینے، 2اکاؤنٹس میں تنخواہیں لینے کے راستے ڈھونڈیں گے، بجٹ آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کیلئے بنایا گیا ہے، یہ صرف فائر فائٹنگ بجٹ ہے،بجٹ کے بعد مسائل مزید بڑھے ہیں،کراچی میں جو ٹیکس کلیکشن ہے وہ اس حساب سے شہر پر نہیں لگتا، میثاق معیشت کی ضرورت ہے، بجٹ کی سمت تو درست ہے لیکن ٹیکس کے نفاذ پر سوالات ہیں، ایجوکیشن اور آبادی میں اضافہ اہم مسائل ہیں، مائننگ ایسا ایریا ہے جس کو ابھی تک ایکسپولر نہیں کیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ میں عارف حبیب، محمد علی ٹبہ، آصف پیر، احسان ملک، آصف انعام، محمد سہیل اور عمار حبیب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ معروف صنعت کار و چیئرمین عارف حبیب گروپ عارف حبیب نے کہا کہ زرعی ٹیکس کے ذریعے 1200 ارب روپے جمع ہو سکتے ہیں، زرعی ٹیکس کے ذریعے دیگر شعبوں کو ریلیف دینا جانا چاہیے، سیاست دان تو ناکام ہو چکے ہیں، وہ اصلاحات پر فیصلہ نہیں کر پاتے، روپے کی قدر میں استحکام سے مہنگائی کم ہوئی، برآمدات سے زیادہ ترسیلاتِ زر میں ترقی ہے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانی مزید رقوم بھیجیں۔ انکا کہنا ہے کہ صدر مملکت بھی کہہ چکے ہیں کہ بڑے زمینداروں کو ٹیکس دینا ہو گا، سمجھتا ہوں کہ صوبے زرعی ٹیکس پر مان جائیں تو بڑی کامیابی ہو گی۔ عارف حبیب نے کہا کہ لوگ اگر باہر جا رہے ہیں تو جانے دیں، حالات یہاں بہتر ہونگے تو وہ واپس آ جائینگے، لوگ باہر جا کر زیادہ سے زیادہ ترسیلاتِ زر بھیجیں، حکومت کو چاہیے کہ یہاں مواقع پیدا کرے، بیرونی سرمایہ کاری فائدہ مند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گروتھ کیلئے انرجی کی قیمت، شرحِ سود اور ٹیکسوں میں کمی ضروری ہے، یہ 3 اقدامات کیے بغیر ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری دیگر ملکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اچھی بات یہ ہے کہ شرحِ سود میں کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ موجودہ بجٹ میں دیکھا جائے تو micro economics stability میں اچھے اقدامات نظر آرہے ہیں ۔ انہوں نے کہا پاکستان میں اگر آپ گروتھ اور انویسٹمنٹ چاہتے ہیں تو تین چیزوں میں کمی کرنا ہو گی، ایک انرجی پرائز میں کمی،دوسرا انٹرسٹ اور تیسرا ٹیکس ریٹ کو کم کرنا ہے۔انہوں نے وقت کے ساتھ انٹرسٹ ریٹ کم ہوتا ہوا نظر تو آرہا ہے لیکن حکومت کو چاہیے مانیٹری پالیسی میں زرا جارحانہ حکمت عملی اپنائے تو چیزیں کچھ بہتری کی طرف جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاستدان بالکل ناکارہ ہیں کبھی اپنے طور پر ریفارم کا فیصلہ نہیں کر پاتے۔ ریٹیلرز ٹیکس جمع کرنے کا معاملہ مینوفیکچرز پر ڈال دیا ہے۔ تنخواہ دار پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں تو پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر جو ہے وہ تو جہاد کررہا ہے کیونکہ ہمارے مسائل تو 50 فیصد سیاسی ہیں۔ سی ای او لکی سیمنٹ محمد علی ٹبہ لکی سیمنٹ کے سی ای او محمد علی ٹبا نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے، لوگوں کی خرچ کرنے کی سکت بہت کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو خدشہ ہے کہ بجٹ فیصلوں سے ہماری ایکسپورٹ 30 ارب ڈالرز سے نیچے آجائیں گی، جتنے ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں، اس سے شرحِ نمو پر منفی اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اگر ملک کو ترقی کرنا ہے تو ہمیں آئی ایم ایف پروگرام سے باہر نکل کراپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا ، اپنی انکم پر گزاراکرنا ہوگا۔ خسارے میں رہتے ہوئے قرضے لیتے رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سیلری کلاس اسکلڈ ورکر بے جا ٹیکس کے بوجھ سے بھاگ کربرین ڈرین کرتی رہی تو ملک میں اصلاحات کون لائے گا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مائنگ میں بہت پوٹیشنل ہے کنسٹریکشن ، ایکسپورٹ ہے ۔ٹوریزم سے بہتری لائی جاسکتی ہے۔باہر سے سرمایہ کاری جب آتی ہے جب سیکورٹی بہترہوتی ہے، ہمیں میثاق معیشت کو بہت ضرورت ہے۔ سی ای او ایم ڈی سسٹمز لمیٹڈ آصف پیر سی ای او و ایم ڈی سسٹمز لمیٹڈ آصف پیر نے کہا کہ ترقی کی بات ہی اہم ہے، آئی ٹی کے شعبے میں بہت مواقع ہیں، باہر جانے والے کو نہیں روک سکتے، جو یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں بھی باہر جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، مڈل مینجمنٹ ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے اور انہیں ہمیں اعتماد دینا ہے، امن وامان بہت اہم ہے، ڈیٹا کی حفاظت، سائبر سیکورٹی، بجلی کی ترسیل یہ سب اہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ٹو جی تھری جی کی اب تک بات ہوتی ہے لیکن دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، کئی عوامل کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری تو نہیں ہو رہی، یہاں فراڈ پروٹیکشن کے قوانین ہی نہیں، ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی خاکہ نہیں، ہمیں بیرونِ ملک پاکستان کا اچھا امیج بنانا ہے، ایچ آر پر لاگت ابھی بھی بہت کم ہے، ڈیجیٹل معیشت کو ترقی دینی ہو گی۔ آصف پیر نے کہا کہ حکومت نے آئی ٹی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے اچھے اقدامات کیے ہیں، ٹیکس سلیب بڑھنے کے بعد لوگ کیش میں تنخواہیں لینے، 2 اکاؤنٹس میں تنخواہیں لینے کے راستے ڈھونڈیں گے۔ چیف ایگزیکٹیو پاکستان بزنس کونسل احسان ملک چیف ایگزیکٹو پاکستان بزنس کونسل احسان ملک نے کہا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کیلئے بنایا گیا ہے، یہ صرف فائر فائٹنگ بجٹ ہے، اس بجٹ سے معاشی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئیگی، بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹس ویلتھ کری ایشن کو گناہ سمجھتے ہیں، بجٹ سے قیمتوں میں جو فرق آیا ہے اس سے مہنگائی میں اضافے کی شرح 18 سے 20 فیصد رہے گی، شرحِ سود میں کمی کی جو توقع کی جا رہی تھی، وہ مہنگائی کی وجہ سے اتنی کم نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ معیشت میں سرکاری مداخلت کو کم کرناپڑے گا۔ چیئرمین اپٹما آصف انعام ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر آصف انعام نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں کا مسئلہ بہت بڑا ہے، 70 فیصد مسائل تو بجلی کی قیمتوں سے ہی پیدا ہوئے ہیں، بجٹ کے بعد مسائل مزید بڑھے ہیں، پی ایس ڈی پی کے ذریعے بجلی کے منصوبے لگانے ہونگے، کیوں نئے ڈیمز نہیں بنائے جا رہے؟آئی پی پیز سے تو مسئلے بڑھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انریجی کا مسئلہ ایڈریس ہونا ہے۔ اگر پراپر ڈیم بنتے تو ایک روپے کی بجلی لے رہے ہوتے آج آئی پی پی چلا ہے وہ آٹھ سینٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں جو ٹیکس کلیکشن ہے وہ اس حساب سے شہر پر لگتا نہیں ہے۔ سی ای او ٹاپ لائن سیکیورٹیز محمد سہیل ٹاپ لائن سیکورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے کہا کہ آئی ایم ایف کی چھتری کے تحت بجٹ بنایا گیا ہے، بجٹ کی سمت تو درست ہے لیکن ٹیکس کے نفاذ پر سوال ہیں، تین چار سال بعد بہتری ہو گی چیلنج یہ ہے کہ آپ کو ڈیفالٹ سے بچنا ہے، ہدف یہ ہو کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں، آئی ایم ایف پروگرام ہماری مجبوری ہے۔ ہماری کوئی ڈائریکشن نہیں ہے ہم نے آئی ایم ایف کے کہنے پر یہ بجٹ بنایا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی چھتری تلے بجٹ بنا ہے تو یہ بجٹ صحیح ہے۔ ہمیں توقع تھی کہ حکومت تیس پینتیس فیصد بجٹ بڑھائے گی لیکن چالیس فیصد بڑھایا ہے۔ ڈائریکشن صحیح ہے لیکن اس بات پر ڈبیٹ ہوسکتی ہے کہ کس پر ٹیکس لگانا چاہیے تھا کس پر نہیں لگانا چاہیے تھا یہاں پر شاید حکومت سے غلطی ہوئی ہے۔ کچھ سیاسی وجوہات تھیں کچھ ریفارمز کرنےتھے نہیں ہوئے۔ بتدریج اسٹبل ائزیشن سے ہم ماڈریٹ گروتھ کی طرف جائیں گے۔