گرچہ انسان اس دُنیا میں اکیلا آتا ہے اور تنہا ہی سفرِ آخرت پر روانہ ہو گا، لیکن وہ دنیوی زندگی میں اکیلا نہیں رہ سکتا، کیوں کہ یہ اُس کی فطرت کے خلاف ہے۔ جب کوئی بچّہ پیدا ہوتا ہے، تو ابتدا میں اُس کی سب سے زیادہ قُربت و اُنسیت اپنے والدین سے ہوتی ہے۔ پھر وہ بہن بھائیوں اور دیگر عزیز و اقارب سے مانوس ہوتا ہے۔
بعد ازاں، عُمر بڑھنے کے ساتھ اُس کا حلقۂ احباب وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر جوانی تک اُس کے کئی دوست بن چُکے ہوتے ہیں۔ تاہم، انسان اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کس شخص کی دوستی اس کی دُنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی اور اس دوستی کا دائرۂ کار کیا ہونا چاہیے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ہم خیال افراد کے ساتھ خود کو پُرسکون اور مطمئن محسوس کرتا ہے اور زندگی میں بہترین دوستوں کا مل جانا، گویا کام یابی کی پہلی سیڑھی ہے، کیوں کہ پھر انسان مشکلاتِ زندگی سے تنہا نہیں لڑتا بلکہ ہر مشکل میں اس کے دوست اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس کی رہ نمائی کرتے ہیں۔ یاد رہے، بہترین دوست وہی ہوتے ہیں، جو ہمیں تلخ حقائق کا سامنا کرنا اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونا سکھاتے ہیں۔
نیز، ہمیں ہماری خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کرتے ہیں اور خلوصِ نیّت سے مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’ کسی شخص کو پہچاننا ہو، تو اُس کے ہم نشینوں کو دیکھو۔‘‘ نیز، دوستی سے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھی کچھ معروف اقوال ہیں کہ ’’وہ شخص غریب ہے، جس کا کوئی دوست نہیں۔‘‘ ’’بُرے دوست سے بچو کہ وہ تمہارا تعارف بن جاتا ہے۔‘‘ اور ’’دوست، اُس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا، جب تک وہ تین مواقع پر تمہاری حفاظت نہ کرے۔ مصیبت کے موقعے پر، تمہاری غیر موجودگی میں اور تمہارے مرنے کے بعد۔‘‘
لگ بھگ ہر فرد کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ اپنی کام یابیوں یا ناکامیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا فرد اس کا بہی خواہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یاد رہے کہ آپ جن افراد کے ساتھ زندگی بَھر دوستی کا تعلق قائم رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے ان کے اخلاق، رویّے اور اقدار کا جائزہ لیں کہ آیا وہ جس طرح آپ کے ساتھ پیش آتے ہیں، اپنے اہلِ خانہ، والدین، بہن بھائیوں اور دیگر کے ساتھ بھی اسی طرح برتائو کرتے ہیں۔
یاد رکھیں، اگر آپ کا دوست اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بھی حُسنِ اخلاق سے پیش آتا ہے، تو پھر اس کا رویّہ آپ کے ساتھ ہمیشہ بہتر ہی رہے گا، لیکن اگر وہ اپنے گھر میں ہمہ وقت طوفانِ بدتمیزی برپا کیے رہتا ہے، تو آپ یہ جان لیں کہ اُس شخص نے محض دکھاوے کے لیے خوش اخلاقی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور کسی بھی وقت اُس کا اصل رُوپ آپ کے سامنے آ سکتا ہے۔ لہٰذا، ایسے شخص سے دوستی کرنے سے اجتناب کریں۔
اخلاق جانچنے کے بعد آپ یا آپ کے دوست کا امتحان کسی بھی مشکل اور امتحان کی گھڑی میں ہوتا ہے۔ مشکلات کے وقت آپ کے ساتھ پہلی صف میں کھڑا ہونے والا اور ان سے نبر آزما ہونے کے لیے آپ کی دُرست اور بروقت رہ نمائی کرنے والا ہی آپ کا حقیقی دوست ہو گا۔
یاد رہے کہ مفاد پرست دوست ایسے موقعے پر سب سے پہلے غائب ہو جائیں گے اور پھر کڑا وقت گزر جانے کے بعد آپ کے پاس آ کر ہم دردی کا مظاہرہ کریں گے، تو پھر بہتر یہی ہے کہ آپ انہیں اُسی وقت مسکرا کر الوداع کہہ دیں۔
مخلص دوست، عموماً سگے بھائی کی مانند ہمہ وقت ساتھ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ آپ اگر کسی بُرائی کی طرف راغب ہونے کی کوشش بھی کریں، تو وہ آپ کو اس دلدل میں گرنے سے پہلے ہی نکال لیتے ہیں۔ وقتی طور پر تو آپ کو اُن کی روک ٹوک ناگوار محسوس ہو گی، لیکن پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کو اُن کا یہ احسان ہمیشہ یاد رہے گا اور احساسِ تشکّر کے ساتھ اُن کے لیے دل سے ہمیشہ دُعائیں نکلیں گی، جب کہ اخلاقیات اور اقدار سے عاری دوست ایسے موقعے پر آپ کو گہری دلدل میں دھکیل کر خود غائب ہو جائیں گے اور آپ کے پاس اپنی باقی ماندہ زندگی میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔ لہٰذا، ایسے افراد کو اپنا دوست بنانے سے اجتناب برتیں کہ جو دنیا و آخرت میں آپ کے لیے ذلّت و شرمندگی کا باعث بنیں۔
یاد رہے کہ ہر رشتے کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت اور اہمیت ہوتی ہے۔ گرچہ اس دُنیا میں والدین جیسی نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کے حقوق کی بھی حد مقرّر کی ہے۔ اسی طرح زوجین اور بچّوں کا رشتہ بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، حتیٰ کہ قرآن کریم میں ہمیں یہ دُعا تعلیم فرمائی گئی ہے کہ ’’ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے بیوی بچّوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے۔‘‘ لیکن اہلیہ اور بچّوں کے لیے بھی حدود و قیود ہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی سے دوستی کرتے ہیں، تو اس رشتے کی حدود کا بھی خیال رکھیں۔ کسی کے ذاتی دائرۂ کار میں داخل نہ ہوں اور نہ ہی کسی کو اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دیں، چاہے وہ آپ کا سب سے قریبی اور مخلص دوست ہی کیوں نہ ہو۔
دوستی کا مقصد اللّہ تعالیٰ کی رضا کا حصول، ایک دوسرے کی مدد اور امن کا فروغ ہونا چاہیے اور جب بھی حدود کی پامالی ہو گی، تو اس کا نتیجہ نقصان ہی کی صُورت برآمد ہو گا اور پھر یہی دوستی آہستہ آہستہ نفرت میں بدلنے لگے گی۔
بہر کیف، ہر سال 30جولائی کو دوستی کا عالمی یوم منانے کا مقصد بھی دوستی کے رشتے کے ذریعے امن کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ 2011ء میں اقوامِ متحدہ نے یہ دن اِس عزم کے ساتھ منایا کہ لوگوں، ممالک اور مختلف ثقافتوں کے مابین دوستی کے ذریعے قیامِ امن کی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔
آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم اپنی نیّتوں میں اخلاص پیدا کریں، بہترین اخلاقی اقدار کے فروغ کے اقدامات کریں، مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور کسی کی بھی حدود کی پامالی سے گریز کریں، چاہے وہ حدود دوستی کے رشتے میں بندھے افراد کی ہوں یا ممالک کی۔