شاید ہی کوئی تنقیدی کتاب، خود تنقید کا اس درجہ موضوع بنی ہو کہ اپنی تصنیف کے ایک سو سترہ برس گزرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی عنوان سے تنقید کی زَد میں آتی دِکھائی دیتی ہو۔جی ہاں، کتاب 1907ء میں سامنے آئی۔ عنوان ہے’’ موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ اور مصنّف ہیں، مولانا شبلی نعمانی۔ مولانا محمّد حسین آزادؔ کی انشاء پردازی کا کامل نمونہ سمجھی جانے والی کتاب’’ آبِ حیات‘‘ 1880ء میں سامنے آئی اور اپنے دل کش اسلوب اور بے نظیر اندازِ تحریر کے باعث خاص و عام کے دل میں گھر کر گئی۔ کتاب میں انیسؔ و دبیرؔ کا ذکر موجود تھا۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی’’ مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ 1893ء میں سامنے آئی اور اُس نے بڑی حد تک اپنے وقت کا بھی اور آنے والے دَور کا بھی ادبی منظر نامہ بدل دیا۔ حالیؔ نے شعر کہنے کے اصول و ضوابط بتائے۔ تخلیق کے لیے ضروری صلاحیتوں کی بات کی، مثال کے طور پر شعر کہنے کے لیے درکار تخیّل، مشاہدہ، الفاظ کا چناؤ، الفاظ کا درو بست، سادگی، جوش، آمد آورد وغیرہ۔
اگرچہ آگے چل کر کچھ ناقدین نے حالیؔ پر اس عنوان سے نقد و جرح بھی کی،تاہم اُردو کے بیش تر نقّاد اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ حالیؔ نے پہلی بار اُردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھی۔ ممتاز نقّاد، کلیم الدین احمد نے’’ اُردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں تحریر کیا ہے’’ وہ اردو تنقید کے بانی بھی ہیں اور اردو تنقید کے بہترین نقّاد بھی۔‘‘
حالیؔ کی کتاب میں انیسؔ و دبیرؔ کا ذکر موجود تھا۔ ایسا ہر گز نہیں تھا کہ ’’موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ سے پہلے یا اُس کے بعد ہم عصر شعراء کا موازنہ نہ کیا گیا ہو۔ میرؔ وسوداؔ، مصحفیؔ و انشاؔ، آتشؔ و ناسخؔ، غالبؔ و مومنؔ، داغؔ و امیرؔ جیسی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔تاہم، کسی بھی قلم کار یا نقّاد کو ،کسی ایک شاعر کو دوسرے شاعر پر تفوّق و برتری عطا کرنے کے سلسلے میں، ویسی دشنام طرازی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جیسی شبلیؔ کو’’ موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ کے ضمن میں۔ آخر مولانا شبلیؔ نے ایسا کیا لکھ دیا کہ مخالفت کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہ جاننے سے پہلے خود علّامہ شبلیؔ نعمانی کی زندگی اور کارناموں پر ایک نظر ڈال لی جائے، تو اچھا ہے۔
بندول، ضلع اعظم گڑھ، یوپی میں 1857ء کے ہنگامہ خیز سال میں پیدا ہونے والے شبلی نعمانی کی زندگی جدوجہد، تحصیلِ علم، تصنیف و تالیف اور ہنگامہ خیزیوں سے پُر رہی۔ تعلیم کے ابتدائی مدارج خالصتاً مشرقی طور طریقوں کے حامل رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اُس زمانے کے ذوق کے عین مطابق عربی و فارسی اور دینی علوم کی تحصیل پر مبنی تھے۔1882ء میں زندگی کا ایک اہم موڑ اُس وقت آیا، جب پہلی بار سرسیّد سے علی گڑھ میں ملاقات ہوئی۔
اُن کی اصلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں سے شبلی اس درجہ متاثّر ہوئے کہ اگلے ہی برس علی گڑھ میں عربی کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دینے پر آمادہ ہو گئے۔اُن کے حق میں ایک اور بہتر بات یہ ہوئی کہ تدریس کے لیے وہاں تعیّنات، پروفیسر آرنلڈ سے ملنے جُلنے کے مواقع بھی میسّر آئے۔ شبلی، جو تحصیلِ علم کے جُویا تھے،ان صحبتوں کو نعمتِ غیرِ مترقبہ سمجھتے ہوئے مغربی افکار و نظریات سے نہ صرف یہ کہ واقف ہوئے، بلکہ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی زبان کے اسرار و رموز سیکھنے میں بھی کام یاب ہوئے۔
اب ذہنی افق وسیع تر ہو چلا۔ایک بات البتہ یہ ہوئی کہ وہ مغربی افکار و رجحانات سے واقفیت کے باوجود مشرقی روایات و خیالات پر کچھ اور ثابت قدمی سے کاربند ہو چلے۔مغرب کے جدید علوم اُنہیں قدیم مشرقی علوم کا نعم البدل محسوس نہ ہوئے۔ اُن کے اور سرسیّد کے افکار و خیالات میں یوں خلیج حائل ہونے لگی کہ سرسیّد اپنی حکمتِ عملی کے تحت مغربی یا انگریزی فکر کو مسلمانوں کی ترقّی کا زینہ و ذریعہ سمجھتے تھے، جب کہ اس کے برعکس، شبلیؔ متذکرہ سوچ کو مجرّد دنیاوی سوچ پر محمول کرتے ہوئے اُسے جزوی طور پر اپنانے کے لیے تو تیار تھے، تاہم کُلی طور پر جو سوچ اُن کی شخصیت پر غلبہ کیے ہوئے تھی، وہ مشرقی تھی،جسے وہ دینی و روحانی سوچ قرار دیتے اور اُسے کسی صُورت تَرک کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرسیّد اگر انگریز دوست تھے، تو شبلیؔ کسی حد تک انگریز دشمن۔
سوچ میں بنیادی فرق کے باوجود شبلیؔ نے علی گڑھ کالج سے اپنا تعلق سرسیّد کے انتقال (1898ء)کے بعد ہی توڑا۔قدیم و جدید کے امتزاج نے اُن کی شخصیت پر یہ خوش گوار اثر البتہ ضرور ڈالا کہ’’ دارالعلوم ندوہ‘‘ کے نصاب میں اُنہوں نے انگریزی بطور مضمون پڑھانے کی تحریک شروع کی۔ 1899ء میں شروع کی گئی یہ کوشش 1902ء میں بارآور ہوئی۔ تاہم، ندوہ کے روایت پرست اساتذہ کو شبلیؔ کی جدیدیت ایک آنکھ نہ بھائی اور اُن کے خلاف سازشیں کی جانے لگیں، یہی نہیں فتوے تک جاری کر دیے گئے۔
اس میں شبلی کی عطیہ فیضی سے ہونے والی خط و کتابت اور قائم رہنے والے مراسم کا بھی کچھ نہ کچھ عمل دخل بتایا جاتا تھا۔ناموافق حالات کا سامنا کرنے کے باوجود شبلی نے ندوہ میں درس و تدریس کا ایک عشرہ گزارا اور 1913ء میں وہاں سے وابستگی کا سلسلہ ختم کر دیا۔ مشرقی علوم پر مشتمل ایک عظیم الشان کُتب خانے کی تعمیر کا خواب وہ کافی عرصے سے دیکھ رہے تھے، تاہم اسے تعبیر 1914ء میں ملی اور یوں’’دارالمصنّفین اعظم گڑھ ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔
شبلیؔ کی علمی و ادبی سرگرمیاں 1875ء کے آس پاس شروع ہوئیں۔فارسی میں غزلیں اور قصیدے کہے۔ اُردو بھی مشقِ سُخن تھی۔شعری مجموعوں کے نام کچھ یوں رہے۔’’مجموعہ نظمِ شبلیؔ‘‘، ’’ دیوانِ شبلیؔ‘‘،’’دستۂ گُل‘‘،’’ بوئے گُل‘‘،’’ کلامِ شبلیؔ‘‘ اور’’کلّیاتِ شبلیؔ‘‘۔اِسی عرصے میں عربی اور فارسی میں کئی نثری کُتب تحریر کیں۔ 1887ء میں اُن کی کتاب’’ المامون‘‘ کو شہرت ملی۔
اگلے عشرے میں کئی ضخیم اور اہم کتب سامنے آئیں، جن میں’’ سیرت النعمان‘‘، ’’ سفرنامۂ روم‘‘اور’’ رسائلِ شبلیؔ‘‘ وغیرہ شامل تھے۔ 1898ء میں سامنے آنے والی کتاب’’الفاروق‘‘ کو بھی بے پناہ شہرت ملی۔دو اور اہم ترین تصانیف’’شعر العجم‘‘(1918ء)جوپانچ جِلدوں میں اُردو زبان میں فارسی شاعری کی تاریخ اور تنقید پر مبنی ہے اور’’سیرت النبیﷺ‘‘(پہلی جلد1918ء)، دوسری جلد(1939ء میں اُن کے شاگرد سلیمان ندوی نے مکمّل کی)سامنے آئیں۔
شبلیؔ ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ اُنہیں بلاتکلّف استاد، عالم، مؤرّخ، سوانح نگار، سیرت نگار، نقّاد، شاعر، ادیب، انشا پرداز، دانش وَر، ادارہ ساز اور رجحان ساز قرار دیا جا سکتا ہے۔اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ بڑی شخصیات کی مخالفت بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور شبلیؔ بھی اس رویّے سے مستثنیٰ نہیں رہے۔کبھی کتابوں پر تنقید ہوئی، تو کبھی افکار و خیالات پر اور کبھی عطیہ فیضی کے سلسلے میں اُن کے کردار پر۔بہرحال شبلیؔ کی مضبوط علمی شخصیت پرکسی بھی صُورت میں وقت کی گرد نہ پڑ سکی۔
’’ موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ تحریر کرتے وقت کیا مولانا شبلیؔ نعمانی کو اندازہ تھا کہ اشاعت کے بعد کتاب کے مندرجات کتاب اور صاحبِ کتاب دونوں کو تنقید کی شدید زد پر لے آئیں گے؟ اِس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کتاب پر اس درجہ جارحانہ تنقیدکی آخر وجہ کیا تھی؟اُردو کی چند بہترین خود نوشتوں میں سے ایک کے خالق، سر رضا علی’’ اعمال نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں’’ مولوی شبلیؔ کی کتاب کی بڑی کمی تو یہ ہے کہ انیسؔ کے کلام سے کتاب بَھری پڑی ہے۔
کُل کتاب 284صفحات کی ہے اور شروع کے بیس صفحوں میں عربی، فارسی اور اُردو مرثیہ گوئی کا ذکر ہے ۔210 صفحے انیسؔ کی نذر کیے گئے ہیں، جب کہ دبیرؔ کے حصّے میں صرف 20صفحات آئے ہیں، بقیہ صفحات میں دونوں شاعروں کے کلام پر مولوی شبلیؔ کی تنقید ہے۔ التزام یہ ہے محض تنقید میں ہی نہیں، بلکہ جہاں کلام نقل کیا ہے، وہاں بھی جگہ جگہ انیسؔ کو سراہا ہے اور اُن کی بندشوں کی چُستی، روانی، جذبات کے اظہار اور مناظرِ قدرت کی صحیح تصویر کھینچنے کے کمال کی جانب جا بجا توجّہ دلائی ہے۔
دبیرؔ کے بہترین کلام کے ساتھ بھی اگر یہی فیّاضی برتی جاتی، تو غالباً دبیرؔ کا پلّا ہلکا نہ رہتا۔ اگر انیسؔ کے بہترین کلام کا دبیرؔ کے بہترین کلام سے مقابلہ کیا جائے، تو میری ناچیز رائے میں ترجیح کا تاج بلا تامّل کسی ایک کے سر پر رکھ دینا دشوار کام ہو گا۔‘‘خود شبلیؔ نے کتاب تحریر کرنے کی غرض و غایت کیا بیان کی، آئیے اُن ہی کے قلم سے’’ تمہید ‘‘ کی ذیل میں ایک نظر اس عنوان سے ڈالتے چلیں۔
’’فلسفہ اور شاعری برابر درجے کی چیزیں ہیں، لیکن قوم کی بدمذاقی سے جس قسم کی شاعری نے مُلک میں قبولِ عام حاصل کر لیا ہے، اُس نے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ اُردو شاعری میں زلف و خال و خط یا جھوٹی خوشامد اور مدّاحی کے سِوا اور کچھ نہیں ہے۔میر تقی کی غزلیت، درد کا تصوّف، غالب کا فلسفہ شاعری کی جان ہیں، لیکن ان بیش بہا خزانوں میں سے بھی، عام لوگوں کی نگاہ صرف خزف ریزوں پر پڑتی ہے۔میر انیس کا کلام شاعری کے تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے، لیکن اُن کی قدردانی کا طغرائے امتیاز صرف اس قدر ہے کہ ’’ کلام فصیح ہوتا ہے اور بین اچھا لکھتے ہیں‘‘۔
بدمذاقی کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اور مرزا دبیر حریف اور مقابل قرار دیئے گئے اور مدّت ہائے دراز کے غور و فکر، کد و کاوش، بحث و تکرار کے بعد بھی فیصلہ نہ ہوسکا کہ ترجیح کا مسند نشیں کس کو کیا جائے، اس بنا پر مدّت سے میرا ارادہ تھا کہ کسی ممتاز شاعر کے کلام پر تقریظ و تنقید لکھی جائے، جس سے اندازہ ہو سکے کہ اُردو شاعری باوجود کم مائگیٔ زبان کیا پایہ رکھتی ہے، اِس غرض کے لیے میر انیس سے زیادہ کوئی شخص انتخاب کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا تھا، کیوں کہ اُن کے کلام میں شاعری کی جس قدر اصناف پائی جاتی ہیں اور کسی کے کلام میں نہیں۔شُکر ہے کہ آج اس ارادے کے پورے ہونے کی نوبت آئی اور یہ کتاب ناظرین کی خدمت میں پیش ہے، اِس کتاب میں میر انیس کا موازنہ بھی مرزا دبیر سے کیا گیا ہے اور اس مناسبت سے اس کا نام موازنہ ہے۔‘‘
شبلیؔ کے بیان کیے گئے نکات سے جو باتیں سامنے آتی ہیں، وہ کچھ یوں ہیں۔میرؔ، دردؔ اور غالبؔ اُردو شاعری کی جان ہیں۔تاہم، میر انیسؔ واحد شاعر ہیں، جن کا کلام شاعری کا سب سے بہتر نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود، انیسؔ کی وہ قدردانی نہیں کی گئی، جس کے وہ مستحق تھے اور اُنہیں محض اتنا ہی سمجھا گیا کہ اُن کے کلام میں فصاحت( صاحبِ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق علمِ بیان کی اصطلاح میں تراکیبِ غیر مانوس، الفاظِ ثقیل و درشت و مشکلہ سے کلام کا پاک ہونا) ہے اور وہ بین(مرثیے کا وہ حصّہ، جہاں سے واقعاتِ کربلا میں مصائب کا بیان شروع ہوتا ہے) اچھا لکھتے ہیں۔
سُخن فہمی کا درجہ اِس قدر گر چکا ہے کہ اُنہیں نامناسب طور پر مرزا دبیرؔ کا حریف سمجھا جا رہا ہے اور اسی بنیاد پر اُن کا مرزا دبیرؔ سے موازنہ کروایا جا رہا ہے اور یہ عمل ایک عرصے سے جاری ہے اور اُس کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ کس کو کس پر ترجیح دی جائے۔
شبلی اِس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مدّت سے یہ سوچ رہے تھے کہ کسی ایسے شاعر کے کلام کی نقد و شرح کی جائے، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اُردو شاعری اپنی محدودیت کے باوجود کیا بلند مقام و مرتبہ رکھتی ہے اور اس کسوٹی پر پوری اُردو شاعری میں سوائے میر انیسؔ کے اور کوئی پورا نہیں اُترتا۔
شبلیؔ کے مطابق کیوں کہ اِس کتاب میں انیسؔ کا موازنہ بھی دبیرؔ سے کیا گیا ہے، اِس لیے کتاب کا نام ’’موازنہ‘‘ ہے۔ شبلیؔ، جو انیسؔ کا موازنہ دبیرؔ سے کرنا’’ بدمذاقی‘‘ قرار دے چُکے ہیں، یہ پُختہ سوچ رکھتے ہیں کہ دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں، بلکہ وہ تو اِس خیال پر کاربند ہیں کہ پوری اُردو شاعری میں میر انیسؔ کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب دبیرؔ سے موازنہ’’ بدمذاقی‘‘ ہے، تو اُنہوں نے کیوں’’ موازنۂ انیسؔ و دبیر‘‘ کیا۔ اس کی غالباً ایک وجہ یہ تھی کہ انیسؔ جس صنفِ شاعری میں اپنے قلم کے جوہر دِکھا رہے تھے، اُن کے زمانے میں صرف مرزا دبیرؔ ہی اُس صنف کے دوسرے نام وَر شاعر تھے۔ اُن کے ہم عصر دیگر سربر آوردہ شعراء میں مرزا غالبؔ، مومن خاں مومنؔ اور ذوقؔ دہلوی میں سے کوئی بھی اس میدانِ سُخن میں موجود نہیں تھا،لہٰذا موازنہ صرف اور صرف مرزا دبیرؔ ہی سے کیا جا سکتا تھا۔سو،’’ بدمذاقی‘‘ ہی سہی، موازنہ بہرحال کیا گیا۔
7نومبر 1903ء کو مولوی محمّد سمیع کو لکھے گئے ایک مکتوب میں شبلیؔ تحریر کرتے ہیں’’مَیں نے میر انیسؔ کے کلام پر ایک مفصّل ری ویو لکھا ہے، جو ایک کتاب کی صُورت میں شائع ہو گا۔‘‘قابلِ غور بات یہ ہے کہ میرؔ، دردؔ اور غالبؔ اُردو شاعری کی جان ہونے کے باوجود شبلیؔ کے مفصّل ری ویو کا موضوع اِس لیے نہ بن سکے کہ مذکورہ شعراء کا کلام شاعری کی تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ پیش نہیں کرتا تھا اور اس کسوٹی پر پورا اُترنے والا شاعر، پوری اُردو شاعری میں سوائے میر انیسؔ کے کوئی اور نہ تھا۔
شبلیؔ ،مرثیے تک نہ تو عقیدے اور عقیدت کی راہ سے پہنچے اور نہ دینی اور ایمانی جذبے کے راستے سے۔ یہ حقیقت البتہ اپنی جگہ موجود ہے کہ مغربی فکر و علوم سے آگاہی کے باوجود اُنہیں مشرقی طرزِ حیات اور اُس سے جُڑے دینی و دنیوی اُمور ہمیشہ متاثر کرتے رہے۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ اُردو اصنافِ شعری میں مرثیے کے مختلف النّوع سماجی زاویے اور پاکیزگی اُنہیں اس حد تک پسند آئی کہ اُنہوں نے بالیقین یہ اقرار کیا کہ’’ اُردو شاعری باوجود کم مائگیٔ زبان‘‘ کے محض انیسؔ کی بدولت اعلیٰ پائے کی حامل ہے۔ غالباً شبلیؔ ہی وہ واحد انیسؔ شناس بھی تھے، جنہوں نے میر انیسؔ کے اُس دعوے کی حقیقت سمجھی، جس میں کہا گیا تھا’’ سُبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر مگر ہم نے پلّہ گراں کر دیا۔‘‘
شبلیؔ نے مرثیے کو انسان اور سماج سے وابستہ ہر رشتے اور اُس کے افکار و کردار کے اظہار کا سب سے طاقت وَر ذریعہ محسوس کیا۔شبلیؔ تو بہت صاف گوئی اور سچّائی سے اِس بات کا اقرار کر چُکے تھے کہ میر کی غزلیتؔ، دردؔ کا تصوّف اور غالبؔ کا فلسفہ شاعری کی جان تو تھے، تاہم متذکرہ شعراء کا کلام شاعری کی تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ بہرحال نہیں تھا۔تمام اصناف کی فہرست میں نظیرؔ کا شمار کیا جا سکتا تھا،لیکن اُن کی شاعری بہتر سے بہتر نمونہ شاید اس بِنا پر نہ ہوتی کہ شاعری کی جو تہذیب انیسؔ کے پاس تھی، ویسی نظیرؔ کے پاس قطعی نہیں تھی۔
جیسا کہ سطورِ بالا میں تحریر کیا گیا ہے کہ’’ موازنہ‘‘ 1907ء میں سامنے آیا، جب کہ شبلی ؔ کا سالِ وفات 1914ء ہے۔ گویا شبلیؔ نے جس وقت موازنہ تحریر کیا،اُن کے قلم سے تخلیق و تحقیق کی بے پناہ قوّت کی حامل زیادہ تر کتابیں سامنے آچُکی تھیں اور موازنہ اُن کے لگ بھگ آخر زمانے کی تحریر تھی۔گویا شبلیؔ کو اپنی ادبی زندگی کے اختتام کے قریب اِس بات کا ادراک ہوا کہ اُردو شاعری میں انیسؔ کے مقابل کوئی دوسرا تخلیق کار ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ شبلیؔ کی کتاب کی رَد میں بہت سی کتابیں سامنے آئیں۔
تردیدِ موازنہ(شیخ محمّد جان عروجؔ:تالیف حسن رضا)، ردّالموازنہ(میر افضل علی ضو)، المیزان(سیّد نظیرالحسن فوق مہابنی)، جوابِ موازنہ(سیّد ذوالفقار حسین جون پوری) وغیرہ۔چند کتابوں میں شبلیؔ پر دلائل کی روشنی میں ٹھوس اعتراضات بھی قائم کیے گئے،مگر سچ یہ ہے کہ شبلیؔ کی ’’موازنہ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی، اُس کی رد میں تحریر کی جانے والی کتب کو اُس کا عشرِ عشیر بھی حاصل نہ ہو سکا۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا شبلیؔ کو اندازہ تھا کہ موازنہ اُن کو ایک متنازع حیثیت کا حامل بنا دے گا؟ تو اُنھیں شاید یہ اندازہ یوں نہیں تھا کہ وہ اپنے پیش روؤں کو بھی انیسؔ کی شاعری کو دیگر شعراء کی شاعری پر تفوق عطا کرتے دیکھ چُکے تھے۔
جس’’ موازنے‘‘ کے سلسلے میں شبلیؔ کو آج تک مطعون قرار دیا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے انیسؔ کو دبیرؔ پر یک طرفہ طور پر فوقیت دی، تو آئیے، اُردو کے اوّلین تنقید نگار، خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی’’ مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ اُردو کے اوّلین تنقید نگار کی انیسؔ کے سلسلے میں کیا رائے ہے۔
وہ تحریر کرتے ہیں’’ آج کل یورپ میں شاعر کے کمال کا اندازہ اِس بات سے کیا جاتا ہے کہ اُس نے اور شعراء سے کس قدر زیادہ الفاظ خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کیے ہیں۔اگر ہم بھی اسی کو معیارِ کمال قرار دیں، تو بھی میر انیسؔ کو اُردو شعراء میں سب سے برتر ماننا پڑے گا۔اگرچہ نظیرؔ اکبر آبادی نے شاید میر انیسؔ سے بھی زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں، مگر اس کو اہلِ زبان کم مانتے ہیں۔
بخلاف میر انیسؔ کے کہ اُس کے ہر لفظ اور محاورے کے آگے سب کو سَر جُھکانا پڑتا ہے۔ میر انیسؔ کا کلام جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا بلاشبہ مبالغے اور اغراق سے خالی نہیں، مگر اس کے ساتھ ہی وہ جہاں کہیں واقعات کا نقشہ اُتارتے ہیں یا نیچرل کیفیات کی تصویر کھینچے ہیں یا بیان میں تاثیر کا رنگ بَھرتے ہیں، وہاں اِس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مقتضائے وقت کے موافق جہاں تک کہ امکان تھا، میر انیسؔ نے اُردو شاعری کو اعلیٰ درجے پر پہنچا دیا تھا۔ شعراء کے جرگے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویّا مرثیہ خواں، مگر میر انیسؔ نے اِس قول کو بالکل باطل کر دیا۔
اُن کو جس نظر سے کہ ہم دیکھتے ہیں، اُس نظر سے بہت کم دیکھا گیا ہے۔اکثر ذاکرِ امام حسینؓ سمجھ کر اُن کا ادب کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جو اُن کو صدقِ دل سے یا محض اپنے فریق کی پاس داری اور دوسرے فریق کی ضد سے صرف مرثیہ گویوں میں سب سے فایق اور افضل سمجھتے ہیں، لیکن ایسے بہت کم ہیں، جو مطلق شاعری میں فی الواقع بے مثل سمجھتے ہوں۔‘‘
’’موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ کی اشاعت کے بعد سے چاہے کوئی شبلیؔ کی رائے کے موافق رہا ہو یا مخالف، یہ بات طے ہے کہ اُردو اصنافِ شعری میں مرثیے کو عقیدے و عقیدت کے بجائے بطور صنف سمجھنے اور جاننے کا چلن رواج پا گیا اور اس بات کا سہرا سوائے علّامہ شبلیؔ نعمانی کے کسی اور کے سَر نہیں باندھا جا سکتا۔