• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم رضوان ملغانی، کوئٹہ

تھوڑی بہت خوش حالی میں قحط، قہر بن کر ٹُوٹا۔ زندگی کے بالن میں بھوک کا الاؤ دہکنے لگا۔ حسین خوابوں کی ڈوریں ٹوٹنے، اچھے دِنوں کی آس کے بخیے اُدھڑنے لگے۔ صداقت علی کے آنگن میں، جہاں جیون، کبھی سُکھ کی بشارت بھی ہوا کرتا تھا، اب ہرناتواں وجود کے کاندھوں پہ جیسے دُکھوں کی کوئی گٹھری سی لد گئی تھی۔ اور اِس بار نے سب سے زیادہ جس کی کمرتوڑی تھی، وہ امّاں برکتے تھیں۔ 

صرف اِس گھرکی نہیں، پوری بستی کی امّاں برکتے، جنھیں پَت جھڑسےکبھی کوئی سروکار ہی نہ تھا،اِس قحط نےتو اُنہیں مایوسی کی ایسی تصویر بنا دیا تھا، جس پہ اشکوں کا کوئی ہار پرو کے ڈال دیا گیا ہو۔ گھر کا واحد کفیل، صداقت علی بھی وقت سے پہلے ڈھے گیا تھا، بالکل اپنے گھرکی اُس کچّی دیوارکی طرح، جو پچھلے سال سیلاب میں گری تھی۔

کبھی صداقت علی کی بڑی بیٹی رضیہ نے جب مَلکوں کی ہونےوالی بہو کی چادرپہ کچّے سِیپ سے پھول، بُوٹے ٹانکے تھے، تو سب ہی نے بہت واہ واہ کی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے کام میں ایسی ماہر ہوگئی کہ لوگ منہ مانگی اُجرت دینے لگے، پھر گاؤں والوں کو پیٹ کے ایندھن کے لالے پڑے، تو جیسے اُس کے کام کوبھی گہن لگ گیا۔ صفیہ، رضیہ سے تین برس چھوٹی تھی، پیدا ہوتے ہی ساتھ اَن گنت بیماریاں بھی تبرّک کےطور پر لائی تھی۔ اُس کی زندگی کا ہرسال اُسے کسی نئے مرض میں مبتلا کر جاتا۔ 

ہر طبیب، حکیم کو دکھایا، پیر فقیر، بابے جوگی، دَم تعویذ سب کروا کے دیکھ لیا، پر، وہ دن بدن سوکھ کے کانٹا ہی ہوتی جا رہی تھی۔ اور رضیہ، صفیہ کی محبّتوں سے لب ریزایک دل، جو ہمہ وقت اُنہی کے لیے دھڑکتا۔ حالات نے کئی پینترے بدلے، مگر شمیم کی ممتا میں کمی نہ آئی، لیکن اب وہ بھی وسوسوں میں گِھری رہتی۔ رضیہ کے جہیز کی پیٹی کوتالا لگے کتنے سال ہوچُکے تھے۔ منہگا ڈنرسیٹ تو کُجا، مٹی کی پرات، پلاسٹک کی چنگیر تک نہ لی تھی کہ جسےرکھنے کے لیے تالا کھولتی۔ مگر، بظاہر وہ صبر و شُکر کے مرتبان میں قید تھی۔

’’ہا ہا ہا… شاد پوراں… نہ جانے کس کم بخت نے اِس وستی(بستی) کا نام شاد پوراں رکھا تھا۔‘‘ وہ اپنےگاؤں کو جاتی سڑک کے کونے پہ لگےسائن بورڈ پہ موٹے موٹے حروف میں لکھا نام پڑھ کر طنزیہ ہنسی ہنسا۔ آستینیں اوپر چڑھی ہوئی، بٹن کُھلے اور گھنگھریالے بال دیکھ کر تو لگ رہا تھا کہ شاید ہفتوں پہلے سر میں تیل کی مالش کروائی تھی، پرنہانا بھول گیا تھا۔ یہ شاد پوراں کا گول چورنگی چوک تھا، جہاں انواع واقسام کی اشیاء کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں۔

اُنہی میں ایک مٹھائی کی دکان کے شوکیس میں سجی برفی، جلیبی اور گلاب جامن کے تھالوں پرمکھیوں کا ٹولہ منڈلا رہا تھا۔ اِس بات سے قطع نظر کہ مکھیوں نےکیا حشربپا کررکھا تھا، اُسے رسیلے، میٹھے، نرم وگرم گلاب جامن کھانے کا شوق چرایا تھا۔ ’’چاچا! ایک گلاب جامن تودے۔‘‘وہ ساری شرم بالائے طاق رکھتے ہوئےاندرگھس کے ہاتھ پھیلائے بولا۔’’ایک چھوڑ، دس دوں گا، یہ بتا پیسے ہیں تیری جیب میں؟‘‘ چاچے بخشو نے بھی بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے۔ وہ اُس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ ’’ابھی تونہیں ہیں چاچا! پر مَیں تجھے دے دوں گا۔‘‘ اُس نے مسکین سی شکل بنائی۔ ’’چل دفع ہو یہاں سے، مفت خور، کمینا، گلاب جامن کھائےگا، آئندہ میری دکان میں گُھسا تو ٹانگیں توڑدوں گا۔ 

آجاتا ہے ہڈحرام سالا۔‘‘چاچابخشواُسے کاٹ کھانے کودوڑا۔ ایک گلاب جامن کی مانگ نےاُسے ذلیل کردیا، پر اُس پہ مطلق اثر نہ ہوا۔ پاس والی دکان سے بیلنس لوڈ کرواتا طیفا سب دیکھ رہا تھا۔ شاکا اب حمام کے باہر دھرے لکڑی کے ٹوٹےپھوٹےبینچ پہ مُڑا تُڑا سااخبار سیدھا کرکے پڑھنےلگا تھا۔ طیفا لوڈ کرواکے اُسی کے پاس چلا گیا۔ ’’عقل کر شاکے! کیوں ہڈحرامی پہ تُلا ہوا ہے، کوئی کم دھندا کیوں نہیں کرتا۔‘‘ وہ دونوں بچپن کے یار بیلی تھے۔ ایک ہی اسکول سے پڑھے تھے۔ طیفا پڑھائی میں کم زور تھا، لیکن شاکے کواُس کی بُری سنگت نے بگاڑا تھا۔ ’’مجھ اَٹھ جماعتاں پاس کو کون کم دھندا دے گا، تُوں وی ناں طیفے، مخول (مذاق) کرتا ہے۔‘‘ شاکا، طیفے کی بات کو مذاق میں اُڑاتا اخبارکی جانب متوجّہ ہوگیا۔ طیفے نے اُس کی عدم دل چسپی دیکھی، تو اُٹھ گیا۔

نصیبو لال کا گانا’’ڈھولا! اذلاں توں ریشماں تیری، تیری ونجھلی سوکن میری…‘‘ اونچی آواز میں بج رہا تھا۔ اکرم استاد گانے کے بول پیچھے پیچھے دہراتا، اسماعیل درزی کا خط بنا رہا تھا۔ بیچ بیچ میں وہ کوئی ایک آدھ بات بھی کرلیتے۔ دوچار لونڈے باری کےانتظار میں موبائلوں میں سردیئے بیٹھے تھے۔ طیفا بھی وہیں جا کے بیٹھ گیا۔ ’’سُناہے، اِس واری حکومتِ پنجاب نے مفت آٹے، راشن کی تقسیم کا اعلان کیا ہے، غریباں، ناداراں واسطے۔‘‘ اکرم استاد نے پتے کی بات کی۔ صداقت علی جو حجامت بنوا کرنہانےگیا تھا، باہرنکلا، تو اِس خبر نےاُسے حیران کردیا۔ ’’سچ کہہ رہا ہےاکرم استاد؟‘‘ اُس نے بے یقینی سے پوچھا۔ ’’ہاں، صداقت چاچا! مَیں کیوں کوڑی (جھوٹی) خبر پھیلاؤں گا۔ 

مَلکوں کامُنشی آیا تھا بال بنوانے، وہی بتارہا تھا کہ مَلک صاحب نے ہی وستی والوں کے لیے مفت راشن، آٹے کی بات چلائی ہے۔ جلد ہی مَلک صاحب کی حویلی میں ٹرک آئیں گے، جس نے بھی آٹا، راشن لینا ہو، شناختی کارڈ نمبر لکھوا کر اندراج کروا لے۔‘‘ اکرم استاد نے تو ساری معلومات ہی فراہم کردی تھیں۔ صداقت علی کو گیلے بالوں کا ہوش تھا، نہ کنگھی کا، وہ بال سیدھےکیے بغیر حمام سےنکل گیا۔ اِدھر اکرم استاد نے خبر سُنائی تھی، اُدھر باہر بیٹھے شاکے نے بھی یہ خبر اخبار کے پہلے صفحےپہ پڑھی تھی۔’’حکومتِ پنجاب کا انتہائی احسن اقدام، وزیرِاعظم نے مفت راشن کی تقسیم کا اعلان کردیا۔‘‘ شاکے نے جھٹ اخبار جیب میں ڈالااورگھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔

صداقت علی لمبےلمبے ڈگ بھرتا گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ پچھلے بہت سے بیتے دِنوں کی ساری تلخ یادیں، سختیاں جیسے یک دَم بھول بھال گئی تھیں۔ گھر میں معمول کے یاسیت زدہ لمحوں نےاستقبال کیا۔ صفیہ کھانس کھانس کے دہری ہوئی جارہی تھی۔ شمیم نہ جانے کب سے اُس کے سرپہ کھڑی حلق میں پانی کے دو گھونٹ اُتارنے کو ہلکان ہورہی تھی۔ رضیہ گہری سوچوں میں ڈوبی تندور میں لکڑیاں جھونک رہی تھی۔ اور امّاں برکتے روزانہ کی طرح سائے میں چارپائی بچھائے قرآنِ کریم کی تلاوت کررہی تھیں۔ 

وہ امّاں کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ امّاں نے قرآنِ پاک بند کرکےغلاف میں لپیٹا اور اُس کی طرف دیکھنےلگیں۔ ’’خیر تے ہے پُتر! بڑی جلدی میں حمام سے نکل آیا، کنگھی وی نہیں کیتی۔ جا شمیم! کنگھی، شیشہ لے آ، چھوڑ دے نماڑی نوں، کھنگ(کھانسی) رُکے گی، تے آپے پانی منگےگی۔‘‘ شمیم، امّاں کی آواز پراُداسی سے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ واپس پلٹی تو شیشہ، کنگھی ہاتھ میں تھا۔ ’’امّاں! گَل ہی ایسی بتائی اکرم نے، مَیں تے سب چھوڑ چھاڑ دوڑا آیا۔‘‘ اُس نے شمیم سے کنگھی، شیشہ لے کر پاس ہی رکھ دیا۔ 

شمیم بھی پاس ہی چارپائی پہ بیٹھ گئی۔ ’’کیسی بات پُتر! سانوں وی دَس۔‘‘ امّاں برکتے نے نظر کی عینک اتارکر ڈبیا میں ڈالی۔ ’’امّاں …شمیم! سُنو، حکومت نے مفت راشن کی تقسیم کا اعلان کیا ہے۔ اب کوئی بھوکا نہ سوئے گا۔‘‘ صداقت علی کے لہجے میں بہت ہی گرم جوشی تھی۔ اُدھر تندورجل اُٹھا تھا۔ رضیہ نے پیڑے بنائے، آج پھر دو روٹیاں کم پڑ رہی ہیں۔ اُس نے سوچا۔’’اج وی روٹیاں کم پڑگیاں؟ میری جھلّی دھی، اب فکرکی لوڑ نہیں،حکومت ہم غریبوں کےساتھ کھڑی ہے۔‘‘ صداقت علی نےتندور کے پاس کھڑی رضیہ کو افسردہ دیکھا، توبیٹی کے پاس جا کرسر پہ ہاتھ رکھ کے بولا۔ ’’اور امّاں! آئندہ میں تیرے منہ سے سونے کی والیاں (بالیاں) ویچنے کی بات نہ سُنوں۔ میرے مرحوم نانے کےخون پسینے کی کمائی سے بنی تھیں یہ۔‘‘ صداقت علی نے بڑے جوش سے امّاں کو وہیں سے ہانک لگائی۔

امّاں برکتے، جو مستقبل میں اِس گھروندے کے باسیوں کو بَھرے پیٹ سوتا دیکھ رہی تھیں، صداقت علی کی بات پہ مُسکرا اُٹھیں۔ ماضی آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔ ’’مَیں اپنی برکتےکو جہیز میں سونے کی والیاں ضرور دوں گا، کیا سوچے گا میرا دوست کہ مِیدے کی اِکواِک دھی تھی، اُسے بھی ہمارے گھر پیتل کے برتن دے کے ٹوردیا۔‘‘ برکتے کے ابّے نے اُس کی ماں سے کہا تھا۔ ’’اور…اُن کے لیے پیسے کہاں سے لائے گا تُو، برکتے کے ابّا؟‘‘ امّاں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ ’’کچھ وی کراں گا، برکتے کی ماں!پروالیاں ضرور لیاواں گا۔‘‘ 

ابّا نے بڑے جوش سے کہا تھا۔ ’’یہ دیکھ برکتے! تیری سونے کی والیاں، کیسی موٹی موٹی والیاں ہیں،خالص سونا ہی سونا۔‘‘ ابے نے برکتے کی گود میں لا کے وہ بالیاں رکھی تھیں۔ ’’ابّا! تیرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟‘‘ برکتےکی آنکھیں پَھٹی کی پَھٹی رہ گئیں۔ لیکن، ابّےنےکچھ نہ بتایا۔ مگر برکتے کو خُوب اندازہ تھا کہ اِن کے لیے ابّے نے کیسے کیسے اپنی جان ماری ہوگی۔ امّاں برکتے نے جُھریوں بَھرے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنی بالیاں چُھو کے دیکھیں، تو یک دَم ہی آنکھیں بھرآئیں۔

شام کے سائے پھیلے، توبختو چرواہا بھی بکریوں کا ریوڑ ساتھ لیے جھوک سے چل نکلا۔ بَھری جیب انسان کو لمحوں میں اُڑن کھٹولے پہ بٹھا دیتی ہے، انسان کئی سومنصوبے گھڑ لیتا ہے۔ کبھی کچھ ایسا ہی بختوکے ساتھ بھی ہوتا تھا کہ وہ گاؤں کا اکلوتا چرواہا تھا۔ بکریاں خُوب گھاس پھوس چَر کر جب شام کو اچھا دودھ دیتیں، تو اُن کے والی وارث، اُس کوبڑی بھاری مزدوری دیا کرتے۔ لیکن… اب یہ حال تھا کہ دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہوگئی تھی۔ اکلوتا لڑکانکمّا نکلا، سر پہ جوان بیٹی کی شادی کا بوجھ الگ تھا۔ سو، آج اُس نے جوسوچا، وہ کرڈالا۔ اُس نے صداقت علی کی بکری کاسودا کرلیا تھا۔ اور اپنی اِس کمینی حرکت پرشرمندہ بھی نہیں تھا۔ بس یہ خوشی تھی کہ گھر میں کل سے خالی پڑے کنستر میں آٹا ڈل جائے گا۔

وہ دیر سے گاؤں پہنچا، سب کی بکریاں گھروں کو پہنچائیں۔ مگررضیہ نے، جوسمے سے پہلے ہی بکری کے انتظار میں دروازے کے پاس آ کھڑی ہوتی تھی، جھٹ پیروں میں چپل ڈالی اور بختو کے گھر کی راہ لی۔ابھی دہلیز عبور کرنے ہی والی تھی کہ کچھ شناسا آوازیں کانوں میں پڑیں۔’’یہ تُونے کیا کیا ابّا! اب کیا جواب دے گا، چاچے صداقت کو اور میری سہیلی رضیہ…اُس کی تو جان تھی اُس بکری میں۔‘‘ فرزانہ اپنے باپ پرچیخ رہی تھی۔ ’’چُپ کرجا کم بخت! دیوار سے دیوار لگی ہے، سُن لیں گے وہ۔‘‘ اُس کی ماں صُغراں نے فرزانہ کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا۔’’اچھا کیا ہےمَیں نے، جب نہیں ہورہا گزارہ، تویہی کرنا پڑے گا۔ آج اُس کی بکری بیچی ہے، کل کسی ہورکی بیچوں گا۔‘‘ بختو کی سنگ دلی پر رضیہ کے آنسو بھل بھل بہنے لگے۔

رات کی چادرتنی، تو تب تک سب واویلا، بین کرتے تھک چُکے تھے۔ صداقت علی نے بختو کاگریبان چیردیا، خوب بُرا بھلا کہا۔ مگر… بختو پتھر کا بُت بنا کھڑا رہا۔ ’’یہ کیا کیا تُونے بختو! یہ کیا کیا…؟‘‘صداقت علی روتے روتے ڈھے گیاتھا۔ شاکا بھی صداقت علی پر ایک رحم بَھری نظرڈال کےگھرمیں گھس گیاتھا۔ فجر کی نماز کے بعد شاد پوراں کےباسی سرجوڑے بیٹھے تھے۔ سب نے بختو کو خُوب لعنت ملامت کی۔ اور بختو بھی، جس نے آج تک حلال ہی کا لقمہ کھایا تھا،ایک رات بعد ہی سیدھا ہوگیا۔ 

اب اُسے اپنی غلطی پہ سخت افسوس تھا۔ مولوی صاحب نے فیصلہ کیاکہ بختو اپنی سب سے اچھی بکری صداقت علی کو دے گا۔ بختو کے لڑکے نے فیصلہ سُنا، تو ہتھےسے اُکھڑگیا۔ ’’ابّا! مَیں تجھے کسی صُورت اپنی بکری نہیں دینے دوں گا۔ تیری غلطی ہے، تُو خُود نقصان بَھر۔‘‘اُس نے بکری کی رسّی مضبوطی سے پکڑلی۔ ’’بکواس کرتا ہے پیو کے آگے، جانتا ہےناں،کس لیےبیچی مَیں نے بکری۔ اتنا ہی خُود دار ہے، تو جا مَر، کچھ کماکےلا۔‘‘ بختو نے ایک ساتھ کئی تھپڑاُس کے گال پہ جڑ دیئے تھے۔ 

لڑکے کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑگئی، بکری چل کربختوکےپاس آگئی، تو وہ اُسے لیے صداقت علی کی طرف روانہ ہوگیا۔ ’’نہیں بختو، نہیں، تُونے جو کیا، مجبوری میں کیا۔ مَیں، یہ بکری نہیں لے سکتا چل تُو بھی آج میرے ساتھ چل، مَلکوں کی حویلی، ہم اُدھرشناختی کارڈ نمبر لکھوا آتے ہیں، مفت راشن کے لیے۔‘‘ وہ بھی صداقت علی تھا، امّاں برکتے کا بیٹا، اُس نے بکری لینے سے انکار کر دیا تھا۔ بختو رویا، تو پھر روتا چلا گیا۔

صبح ناشتا کرتے ہی وہ اور بختو روانہ ہوئے تھے۔ وہاں تو آدھا گاؤں مَلکوں کی حویلی کا رُخ کیے ہوئے تھا۔ صداقت علی کا زمین پہ پڑتا ہر قدم مَن بھرکا ہورہا تھا۔ ’’تُو ساجے مستری کا پُتر ہے، تیرے یہ ہتھ سونے کے ہیں۔ مَیں نے اپنا سارا ہنر تجھے سونپ دیا ہے۔ اب یہ تیرا کم ہے کہ تُو سیمنٹ، بجری، ریت کے کھرے، کھوٹے مسالےمیں فرق کرے۔ 

پُتر! جہاں تُوٹھیکےدار کو دو نمبری کرتا دیکھے، وہیں کم چھوڑدینا کہ تیری لگائی ایک اِٹ (اینٹ) بھی تجھے اِس دو نمبری کا حصّہ بنا دے گی۔‘‘ اُسے یادوں کا ایک کچوکا سا لگا۔ ’’مجھے کیا سبق پڑھا گیا تُوابّا! صداقت کو صداقت کا درس دیتے، یہ کیوں بھول گیاکہ یہاں تو ہر دوسرا ٹھیکے دار ہی بے ایمان ہے۔‘‘

’’مَیں نے خُود دیکھا ہے ٹھیکے دار جی! مزدور سیمنٹ کم اور ریت زیادہ ڈال رہےہیں۔ آپ اُنہیں کچھ کہتے کیوں نہیں ہو؟‘‘ایک اور بھولی بسری یاد آنکھوں میں جھلملائی۔ ’’او شاباشے! تُو چُپ چاپ اپنا کم کر۔ مزدور وہی کررہے، جو انھیں کہا گیا ہے۔‘‘ ٹھیکےدار نے خاصی ترشی سے مونچھوں کو تاؤ دیا تھا۔ ’’ٹھیکے دارجی! یہ تو نِری ہیرا پھیری ہے۔‘‘وہ بولا تھا۔ ’’بکواس بند کر اپنی، بیس سال ہوگئے، مجھے اِس کم میں۔ 

دو ٹکےکا مستری، مجھےکم سِکھا رہا ہے۔‘‘ ٹھیکے دار نے دائیں ہاتھ کی انگلی میں قید سونے کی انگوٹھی گھماتے ہوئےکہا تھا۔ ’’مَیں اے کم نہیں کراں گا ٹھیکے دارصاحب! میرا حساب کردو۔‘‘ صداقت علی نے منٹوں میں فیصلہ کرلیا تھا اور ٹھیکے دار نےکاٹن کے اکڑے ہوئے سفید سوٹ سے چند روپے نکال کے اُس کے منہ پہ دے مارے۔ وہ اچھے دن تھے،اِکّا دُکّا کام مل ہی جایا کرتا تھا۔ کسی کی دکان بننی ہوتی، تو کسی کا غسل خانہ۔ کسی کے گھر کی دیوار پکی ہونی ہوتی، تو کسی کی چھت۔ زندگی کی گاڑی چلی جارہی تھی، مگر اب تو خال ہی گائوں میں کوئی کام ملتا تھا۔

وہ اور بختو، ایک لمبی سی قطار کا حصّہ بنے کھڑے تھے۔ مَلکوں کا ایک پُتر، جو ولایت سے پڑھ کر آیا تھا، سب کے شناختی کارڈ نمبر نوٹ کررہا تھا اور دوسرا اُن سے انگوٹھے لگوا رہا تھا۔ سب کےانگوٹھے لگ چُکے، تو گائوں کے اسپیکر پہ اعلان ہوا۔ ’’شاد پوراں کے واسیو! آپ سب کے انگوٹھے لگ گئے، نمبر درج ہوگئے، اب جیسے ہی مفت راشن کے تھیلے آئیں گے، ہم اعلان کرکے آپ سب کو بلا لیں گے۔‘‘

رشید کی دکان کا آدھا کام تو اُس نے کردیا تھا، بس چھت رہتی تھی۔ رشید سامان لے کر ہی نہ دیتا کہ چھت ڈالی جائے۔ خدا خدا کر کے ایک دن وہ ٹیئرگارڈرلےآیا، تواُسے بھی بلوا لیا۔ ابھی آدھی چھت کا کام ہی ہوا تھا کہ اُس کا پاؤں پھسلا اوروہ دھڑام سے نیچےآرہا۔ گلی میں گرتا تو بچت ہو جاتی، وہ پکےصحن میں گرا تھا۔ صداقت علی کا بازو ٹوٹ گیا اور پاؤں میں بھی موچ آئی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد جب رشید، ڈسپنسری سے پلسترچڑھوا کر اُسے گھرلایا، تو شمیم پہلے ہی صفیہ کی چارپائی کےساتھ اُس کی چارپائی بھی ڈال چُکی تھی۔

اور پھر… ایک دن تپتی دوپہر میں مسجد سے راشن کےتھیلوں کےاعلانات ہونے لگے۔ صداقت علی چارپائی پہ پڑا درد سے کراہ رہا تھا۔ گرمی کی شدت سے بندھا پلستر مزید تکلیف دیتا تھا۔ زخم ٹھیک ہو کے ہی نہ دے رہا تھا۔ ’’پُتر! پریشان نہ ہو، مینوں اپنا شناختی کارڈ پھڑا، راشن لین مَیں جاواں گی، طیفا مینوں چنگ چی تےبٹھادے گا۔‘‘اماں برکتے کہہ رہی تھیں۔ ’’نہیں امّاں! گرمی ویکھ رہی ہیں، شمیم ہوآئےگی، تُوں بے جا۔‘‘ صداقت علی بولا۔ ’’شمیم نوں صفیہ نے کدھرے آن جان دے قابل چھڈیا اے، مَیں کہہ رہی آں ناں، مَیں جاواں گی۔‘‘ امّاں بولیں۔ ’’اچھا فیر، بختو لے آئے گا۔‘‘ صداقت علی کو امّاں کی سخت فکرتھی۔ ’’نہیں، مَیں کہہ دِتا ناں، مَیں ہی جاواں گی۔‘‘ امّاں برکتے نے بختو کو معاف تو کردیاتھا،لیکن پتا نہیں کیوں، دل میں ایک سوئی سی گڑی تھی۔ پھر امّاں کی ضد کے آگے صداقت نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے۔

مدّت ہوگئی تھی، امّاں کوگھرسےباہر قدم نکالے۔ جب سے ساجا مستری قبر کی منوں مٹّی تلے سویا تھا، امّاں برکتے نے خُود کو گھر کی چار دیواری ہی تک محدود کرلیا تھا۔ آج باہر نکلیں تو سب کچھ عجیب لگ رہا تھا، مگر لُو کے تھپیڑوں سے بے نیاز امّاں راشن کے تھیلے ہی کا سوچ رہی تھیں۔ چنگ چی والے نے چنگ چی روکی، تو طیفے نے اُنہیں آرام سے نیچے اُتارا۔ اماں نےدوپٹا ٹھیک کیا۔ عینک جیب سے نکال کر آنکھوں پہ لگائی اور لرزتے وجود کو سنبھالتی آگے بڑھنے لگیں۔ شامیانہ لگا ہوا تھا۔ مرد و زن کا میلہ جمع تھا۔ ٹرکوں سے آٹے کی بوریاں اُتر رہی تھیں۔ 

سخت دھکم پیل تھی۔ امّاں کے ہونٹوں پہ پپڑی سی جم گئی۔ ایک نفسا نفسی تھی، کسی سے اتنا نہ ہوا کہ بےچاری بڑھیا کو اپنی باری دے دیتا۔ وہ عورتوں کی لمبی قطار میں کھڑی تھیں۔ گرمی کا زور بڑھتا جارہا تھا۔ اتنے میں پیچھے کھڑی شیداں کے بچّے نے امّاں کا کان پکڑ لیا۔ امّاں کراہ کے رہ گئیں۔ اگر وہ اور کان کھینچتا، تو امّاں کی بالی دُور جا گرتی۔ 

امّاں کا نمبر بھی قریب ہی تھا کہ اچانک ایک نوجوان بجلی کی تیزی سےلپکا اورامّاں کا کان چیرتا چلاگیا۔ اماں جہاں کھڑی تھیں، وہیں گرگئیں۔ لوگ جمع ہوگئے تھے۔ امّاں کے چِرے ہوئے کان سے خون کا جھرنا بہہ رہا تھا۔ ’’ہائے میری والی لےگیا کم بخت، ہائےمیری والی…‘‘ امّاں دھاڑیں مارماررورہی تھیں، مگر وہ اتنی مہارت سے ہاتھ صاف کرگیا تھا کہ منٹوں میں رفوچکر ہوگیا۔ لڑکےاُس کے پیچھے بھاگے، لیکن ہاتھ نہ آیا۔

وہ کارروائی کرکے موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا گھر تک آیا تھا۔ سانس پھولی ہوئی تھی۔ گھر میں گُھستے ہی مٹکے سےکئی گلاس پانی کے پیے، لیکن پانی پیتے ہوئے اچانک ہاتھ سے بالی چُھوٹ کرگری۔’’یہ تو امّاں برکتے کی والی ہے،یہ تجھے کہاں سے ملی؟‘‘ اُس کی بہن فرزانہ نے پوچھا تھا۔ مَیں نےکان چیراہے بڑھیا کا۔‘‘ شاکا چلایا۔

اُس کےچلّانےکی آواز صداقت نے بھی سُنی تھی۔ نہ جانے کہاں سے اُس میں اتنی طاقت دَرآئی کہ وہ بازوکا درد بھول بھال تیزی سے اٹھا، باورچی خانےسے کچھ پکڑا اور گھر سے باہر نکل گیا۔

چاقو کے پے درپے واروں سے شاکے کی سفید قمیص تر بہ ترتھی۔ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تڑپ رہا تھا۔ صداقت کے ہاتھ میں موجود چُھری سے گرتے خون کے قطرے زمین میں جذب ہو رہے تھے۔ ’’سوبکریاں چُراؤ، مَیں سو بکریاں معاف کردوں گا۔ پر،امّاں کی والیوں پہ ایسےسو شاکے قربان۔‘‘