• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمرہ مظفّر

بہار کی آمد آمد تھی۔ فضا میں خُنکی برقرار تھی، مگر خون جما دینے والی سردی ختم ہو چُکی تھی۔ گزشتہ کئی صدیوں کا ریکارڈ توڑنے والی سردی کے بعد موسم کی یہ خوش گوار تبدیلی دُنیا بَھر کے انسانوں کے لیے نئی تمنّائیں لے کر آئی تھی۔ برف کی دبیز تہہ سورج کی نرم و گرم شعائوں سے پگھل رہی تھی۔ سبزہ ،زمین کی کوکھ سے جنم لینے کو تیار تھا۔ سوکھے پیڑوں پر ہریالی کے آثار نمایاں ہوا چاہتے تھے۔ پُھولوں کی رنگا رنگ بہار جوبن پرآنے کو تھی۔ ہر سمت خوش بُو اڑاتے پُھولوں سے جب ہوا کے شریر جھونکے اٹکھیلیاں کرتے، تو پرندے اُن کے ہم نوا ہو کر دل لُبھانے والی ترنگوں میں چہچہاتے۔

رات کی خُنک ہوا ہر ذی رُوح کو چین کی نیند سُلا دیتی ہے مگر ایسی ہی ایک رات میں بحیرۂ روم کے ساحل سے کچھ دُور اسپتال کے بستر پر نیم مُردہ حالت میں موجود حیا کو ہوش آیا تھا۔ درد کی شدّت نے اُس کے اعصاب شل کر دیے تھے ، نہ جانے کب سے وہ بستر پر بے سُدھ پڑی تھی۔ اچانک اُس کی نیلگوں آنکھوں کی پتلیوں پر کئی روشن قندیلیں رقص کرنے لگیں۔ 9سالہ حیا کے واحد فعال عضو یعنی دماغ نے ایک جَست بَھری اور اسے یادوں کی وادی میں لے گیا۔

نئے سال کی آمد پر اُس کا مختصر سا کُنبہ بہت خوش تھا ۔ سال کے آخری دن حیا نے جدّہ (دادی جان) کے ساتھ مل کر پورے گھرکو سجایاتھا، کیوں کہ اگلے روز اس کُنبے کے ایک نئے فرد اور حیا کی دعائوں کے ثمر ،ابراہیم نے پہلی بار اس گھر کی دہلیز کو پار کرنا تھا۔ اُسے ابھی دُنیا میں آئے تین دن گزرے تھے اور حیا نے اپنے ’’اخی‘‘ کو صرف ایک بار ہی دیکھا تھا۔ پھر اُسی روز ان کے قومی تہوار، ’’یومِ فتح‘‘ کی پریڈ بھی تھی، جس میں حیا ہر سال اپنے عم (چچا) کے ساتھ شریک ہوا کرتی تھی۔

اچانک دروازے پر دستک ہوئی، تو حیا نے بھاگ کر دروازہ کھولا۔ اُس کے اُم (والدہ) اور اب (والد) ننّھے ابراہیم کو گود میں لیے اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے ابراہیم کو اس کی جدہ کے حوالے کیا اور حیا ان کے پاس بیٹھ کر اس کے نرم گال سہلانے لگی۔ اسی اثنا آسمان روشنیوں سے جگمگا اُٹھا اور ’’ہیپی نیو ایئر‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں، جنہیں سُنتے اور باتیں کرتے کرتے حیا اپنے اب کی گود میں کب سو گئی،پتا ہی نہ چلا۔ بھائی سے دل بہلانے کے شوق میں وہ صبح سویرے ہی بیدار ہوگئی۔

وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی۔ اسکول سے لوٹتے ہی ننّھے ابراہیم کو گود میں اُٹھانے کےلیے مچل جاتی۔ اُسے اپنے بھائی کے ہر وقت ماں کی گود میں رہنے پر اکثر غُصّہ بھی آ جاتا۔ تب دادی اُسے یہ کہہ کر بہلاتیں کہ ’’ اگر اُم، ابراہیم کو بار بار دودھ نہیں پلائے گی، تو وہ بڑا ہو کر تمہارے ساتھ کھیلے گا کیسے؟‘‘ ننّھے ابراہیم کی آمد نے گھر کی رونق میں اضافہ کر دیا تھا۔ اُس کی قلقاریوں کی گونج نے تین کمروں کے اس گھر کو جنّت نظیر بنا دیا تھا۔ خوشیوں کے اس گہوارے میں پانچ ماہ گزرنے کا کسی کو علم ہی نہ ہوا، کم از کم حیا کو تو بالکل بھی نہیں۔

ابراہیم ٹھوس غذا کھانے کے قابل ہوا، تو پہلا نوالہ خاص قومی تہوار،’’نکبہ‘‘ کے دن کھلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُس روز گھر میں دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ حیا بہت خوش تھی۔ ایک تو وہ قومی دستور کے مطابق منعقدہ تقریبات کا حصّہ بننے جا رہی تھی ۔ دوسری خوشی یہ تھی کہ رات گھر آتے ہی ابراہیم کو پہلی بار کھانا کھاتے دیکھے گی۔ حیا اپنے چچا اور کزنز کے ہم راہ تقریبات میں شرکت کے لیے روانہ ہو گئی جب کہ گھر کی دیگر خواتین دعوت کی تیاریوں میں مصروف ہو گئیں۔

گلابی گالوں پر وطن کا پرچم پینٹ کیے اور سَر پہ تکون سُرخ رومال باندھے، سیاہ دھبوں سے مزیّن سفید اور سبز رنگ کی فراک میں ملبوس حیا کسی گڑیا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اُس کی زمّردی آنکھوں کی چمک، اوپر کو مُڑی ہوئی گھنی پلکیں، عنابی ہونٹوں، کندھوں پر لہراتے گھنگریالے بُھورے بالوں اور ملکوتی حُسن نے اسے خاص تہذیب کا حصّہ اور قومی یک جہتی کی علامت بنا رکھا تھا۔ پُرنور چہروں کا ایک جمِ غفیر قومی پرچم اور پلے کارڈز مارچ میں شریک تھا۔ 

مسلّح افواج کی موجودگی میں بھی شرکا کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ شہر سے چلتے ہوئے دوپہر کو ’’مسجدِ معتبر‘‘ پہنچے۔ وہاں ایک وسیع میدان میں نماز ادا کی اور پھر مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے مغرب سے کچھ دیر قبل اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر حیا نے ابراہیم کو ’’کنیف‘‘ (روایتی کھانا) کھلایا اور پھر پورے کنبے نے مُسا خان، فافی، مجددہ اور ہمس جیسے روایتی کھانے تناول کیے۔

ننّھے ابراہیم کی رفاقت نے حیا کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیے تھے۔ تاہم، 4جون کو اسکول سے واپسی پر اُس نے بہت سے اسلحہ بردار سپاہیوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں گشت کرتے دیکھا۔ وہ بلا جھجک کسی بھی گھر میں داخل ہو جاتے اور خواتین، بزرگوں حتیٰ کہ بچّوں کو بھی زبردستی گھروں سے نکال کر بکتر بند گاڑیوں میں ٹھونس دیے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بکتربند گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھی۔ دراصل یہ فوجی، ان لوگوں کو اگلے روز منعقد ہونے والی ’’یومِ نکسا‘‘ کی تقریبات میں شرکت اور اپنے شہدا سے اظہارِ یک جہتی سے روکنا چاہتے تھے۔حیا ان فوجیوں کے چہرے کی رعونت، آنکھوں سے جھلکتی نفرت اور جارحانہ رویے سے سہم گئی تھی۔

موسم نے کروٹ لی ، فضا میں خُنکی بڑھنے لگی۔ ابھی موسمِ سرما کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا۔ بچّے اسکول کے میدان میں کھیل کُود میں مصروف تھے کہ اچانک اساتذہ گھبرائے ہوئے آئے اور تمام بچّوں کو اندر لے گئے اور کچھ ہی دیر میں انہیں ان کے والدین کے حوالے کر کے اسکولز میں غیر معینہ مُدّت تک تعطیلات کا اعلان کردیا گیا۔ گھر جاتے ہوئے حیا نے شہر میں پھیلی خوف و ہراس کی فضا کو محسوس کر لیا۔ 

وہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ اکتوبر کے اوائل میں تو کوئی تہوار بھی نہیں منایا جاتا، تو پھر اس قدر فوجی دستے شہر میں کیوں آن گُھسے ہیں۔ سرِ شام ہی دھویں کے بادل نظر آنے لگے، چیخ و پکار سُنائی دینے لگی ، سائرن بجنے لگے اور پھر یہ سلسلہ کبھی رُکا نہیں۔ ایک ایک کر کے حیا کے کُنبے سمیت دیگر گھرانے مختلف مقامات پر منتقل ہونے لگے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سردی بڑھ رہی تھی اور اشیائے خورونوش ناپید ہوتی چلی جارہی تھیں۔ حیا کو کُھلے میدانوں میں نیلے تھیلوں کے انبار نظر آتے، جنہیں دیکھ کر لوگ رونا شروع کر دیتے۔

پھر نماز پڑھائی جاتی اور ان تھیلوں کو نہ جانے کہاں منتقل کر دیا جاتا۔ ایک دو بار حیا نے ان تھیلوں کو زمین میں اس طرح ڈالے جاتے دیکھا، جیسے وہ اکثر مختلف پُھولوں کے بیج اپنے گملوں میں ڈالتی تھی، مگر وہ یہ سوچ کر پریشان ہوتی تھی کہ چھے ماہ بعد بھی ان نیلے تھیلوں میں موجود بیجوں سے کوئی پودا نہیں اُگا ۔ اب حیا دن میں صرف ایک بار ہی پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتی تھی۔ ابراہیم نہ جانے کیوں بہت کم زور ہوگیا ، جب کہ دادی اپنے بیٹے اور اس کے چچا، داؤد کی تصویر سینے سے لگائے روتی رہتی تھیں۔ 

حیا یہ سوچ کر بھی فکر مند تھی کہ اب اس کے کزنز، رافع، صمد اور حنا بھی اس سے ملنے نہیں آتے اور پھر اُم اسے دادی سے ان کے بارے میں پوچھنے سے منع کیوں کرتی ہیں۔ حیا کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ وہ بہت پریشان تھی اور کئی راتوں سے سو نہیں پا رہی تھی۔ ہر رات بھیانک آوازیں اُسے جگا دیتیں۔ ابراہیم زور زور سے رونے لگتا۔ اُس کے روئی سے گال اب پچک گئے تھے۔ اب حیا اسے گود میں نہیں اُٹھانا چاہتی تھی، کیوں کہ اُس کی ہڈیاں اُسے چُبھتی تھیں۔ پھر ایک دن ان کی رہائش گاہ سے ملحقہ عمارت سے دھماکے کی آواز آئی اور اس کا ملبہ ان کے مکان پر آگرا۔ حیا نے ابراہیم کو گود میں لیے اپنی والدہ کو پتھروں کو ہٹاتے دیکھا اور پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔

اسپتال کے ایمرجینسی رُوم میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ زخمیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو یہاں منتقل کیا گیا تھا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق بم باری کے نتیجے میں ایک عمارت زمین بوس ہو گئی تھی، جس کے ملبے سے چند ہی لوگوں کو اب تک زندہ نکالا جاسکا تھا۔ زخمیوں میں سب سے زیادہ تشویش ناک حالت ایک بچّی کی تھی، جس کا بہت زیادہ خون بہہ چُکا تھا۔ اس کی جلد تھرڈ ڈگری برن کا شکار تھی۔ 

فاسفورس گیس سے متاثر ہونے کے سبب سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے وہ تڑپ رہی تھی، جب کہ شدید صدمے کے باعث ہوش میں ہوتے ہوئے بھی حرکت کرنے یا بولنے سے قاصر تھی۔ اُس کے کٹے ہوئے بازو، ناک اور کان سے خُون بہہ رہا تھا۔ بچّی کے علاج کے لیے ماہر سرجن، ڈاکٹر قاسم کو بلایا گیا۔ انہوں نے اپنی چہیتی بیٹی کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور منہ دوسری جانب پھیر لیا ، لیکن پھر چند لمحوں بعد مریض کو عملے کی معیت میں آپریشن تھیٹر لے گئے۔

تین گھنٹے بعد جھلسی ہوئی اور بازو سے محروم حیا کو پورے جسم پر پٹیاں باندھ کر وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ بُھوک و پیاس سے بلکتے ابراہیم کو گود میں لیے وارڈ کے ایک کونے میں بیٹھی زینب رات بھر اپنے بیٹی کے ہوش میں آنے کی دعائیں کرتی رہی۔ گرچہ ڈاکٹر قاسم رات بَھر زخمیوں کے علاج میں مصروف رہے، لیکن درد بھری نگاہوں سے کبھی حیا تو کبھی زینب کی جانب بھی دیکھتے رہتے۔

رات گزر گئی اور اگلے روز کا سورج نمودار ہوا،لیکن اس روز بھی حیا کے خاندان کی طرح اس خطّے کے دیگر مکینوں کو اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آئی بلکہ اُن کے لیے زمین مزید تنگ ہو گئی۔اُس روز بہت سی لاشوں کے ساتھ حیا کی دادی کو بھی اجتماعی قبر میں اتار دیا گیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کس کے پیارے کہاں دفن ہیں کہ کوئی فاتحہ خوانی ہی کر دے، جب کہ کئی خاندانوں میں تو فاتحہ خوانی کے لیے بھی کوئی نہ بچا تھا۔ ہر روز کئی خاندان لقمۂ اجل بن جاتے اور لاشوں کے ڈھیر میں موجود چند افراد تجہیزوتدفین کے فرائض انجام دیتے صبح سے شام کر دیتے۔

زینب، گود میں نیم مُردہ ابراہیم کے پنجرنما جسم کو لیے دن رات اپنے بچّوں کی زندگی کے لیے دُعاگو تھی۔ بالآخر تیسرے دن حیا نے آنکھیں کھول دیں۔ تاہم، اُس کے ہوش میں آنے سے دو گھنٹے پہلے ڈاکٹر قاسم ایک جائے حادثہ کی جانب روانہ ہو چُکے تھے۔ بیٹی کے گالوں پر بوسہ دے کر گھر سے نکلنے والا آج اُسے چُھو بھی نہ سکا تھا۔ 

ڈاکٹر قاسم نے جائے حادثہ پر موجود زخمیوں کا علاج معالجہ کر کے واپسی کی راہ لی ہی تھی کہ اُن کی ایمبولینس بم باری کا شکار ہو گئی۔ گاڑی میں سوار تمام افراد جھلس گئے۔ لوہے کے کئی ٹکڑے ڈاکٹر قاسم کے جسم میں یوں پیوست ہوئے کہ ان کو نکالتے نکالتے پورا وجود تار تارہو گیا اوربمشکل اُن کی شناخت ہوئی، مگر اُس شناخت کا بھلا کیا فائدہ کہ شہید کی لاش وصول کرنے والا ہی کوئی نہ رہا تھا۔ دُور اسپتال میں بچّوں کے پاس بیٹھی زینب اس الم ناک حادثے سے بے خبر تھی۔ 

دوسری طرف ماں کی گود میں بُھوک پیاس سے لاغر ہو جانے والے ابراہیم نے بڑی خاموشی سے آخری ہچکی لی اور اس بے رحم دُنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ آٹھ ماہ تک دھماکوں کی تیز آواز نے اس کی نازک سماعتوں کو لرزائے رکھا اور جب وہ اپنے من پسند ذائقوں کی جانب راغب ہونے لگا، تو اُسے بُھوک نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گزشتہ تین روز سے خوراک نہ ملنے کے سبب ماں کا دودھ بھی خُشک ہو چُکا تھا اور ایسے میں جسم اور رُوح کا واجبی سا بندھن کب تک قائم رہتا۔ افسوس! اس بار آگ جیت گئی اور ابراہیم اس کا نوالہ بن گیا۔

دُکھوں سے نڈھال اپنے بچے کا لاشہ سینے سے لگائے زینب، حیا کے سرہانے بے بسی کی تصویربنی بیٹھی تھی۔ اُس کی بیٹی کی آنکھیں کُھلی تھیں، مگر بہ قول ڈاکٹر Traumatic Amputation کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کر پا رہی تھی۔ بس آسمان کی جانب دیکھے جا رہی تھی۔ وہ بولنا چاہتی تھی، پکارنا چاہتی تھی اور لوگوں کو بتانا چاہتی تھی کہ اُسے کس قدر تکلیف ہورہی ہے۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ دادی کی کہانیوں کے مطابق تو اللہ تعالیٰ صرف گندے بچّوں کو جہنم میں ڈالیں گے، تو وہ تو بالکل بھی ایسی نہیں تھی، تو پھر آگ کی جلن اس کا مقدر کیوں؟ وہ شکایت کرنا چاہتی تھی کہ اتنی دیر سے اخی سو رہا ہے، مگر پھر بھی اُم اسے گود میں لیے بیٹھی ہے اور اُس کے پاس نہیں آرہی اور پھر جدّہ بھی نظر نہیں آرہی۔

ان ہی سوچوں میں رات کی تاریکی ختم ہوئی اور سورج کی کرنیں حیا کی زمّردی آنکھوں پر منعکس ہونے لگیں۔ تاہم، اب نیلگوں کانچ کے ٹکڑوں نے کسی یاد کو ذہن کے کینوس پر تازہ نہ کیا، کیوں کہ وہ اِس قابل ہی نہیں تھا۔ یہ رات غالباً ’’شبِ قدر‘‘ تھی۔ یہ ماہِ رمضان نہ تھا، مگر پھر بھی یہ شب کئی لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ کر گئی۔ کسی نے اپنے خون سے عہد نامۂ وفا پر دست خط کیے، تو کسی نے بساط بھر جرأت سے ظالم کو للکارا، تو کوئی خاموش تماشائی بنا سب دیکھتا رہا۔

ناقابلِ اشاعت افسانے اور ان کے تخلیق کار

آفت (عنایت اللہ اعزاز، آر اے بازار، لاہور کینٹ)میرے بھانجے کی شادی، میرے یار کی شادی، تو مَیں کیا کروں؟ (ڈاکٹر افشاں طاہر، کراچی) بوجھ (پرویز احمد، حیدر آباد) استاد کی عظمت کی کہانی، ٹوٹا گھر، قربانی(ریطہ فرحت)، نمک حرام، منہگی قربانی، چوری کا بکرا (منیبہ مختار اعوان، لاہور) حج قبول ہوگیا (مجاہد لغاری، ٹنڈو الہیار) خوشیوں کا آشیانہ (نصرت مبین) ماں سے گھر جنّت ہے (صبا احمد) مجرم کون (سماویہ احمد) لاحاصل (امامہ خان سومرو، اوباڑو، سندھ) وقت بدلتے دیر نہیں لگتی (انشاسیّد، کامرہ، اٹک) بکھرے خواب (شاہدہ ناصر، کراچی) فیصلہ(محمد علی سحر)۔