• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صفر کے آخری بدھ میں بیماری سے بچاؤ کے لیے خاص عمل کرنے کا حکم

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میرے دادا جان صفر کے مہینے کے آخری بدھ چند مرتبہ یاسین شریف اور درود شریف پڑھ کر رات بھر عبادت کرکے صبح بواسیر کے مریضوں کو پانی دیا کرتے تھے۔ اب ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری مجھ پر آ گئی ہے تو میں جاننا چاہتا ہوں کیا ان کا یہ عمل صحیح تھا یا نہیں؟ اور مجھے یہ عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور جو لوگ پانی لے جاتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم کو الحمدللہ، اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے شفا دیتا ہے۔ 

برائے کرم مفتی صاحب اب بدھ کو چند ہی دن باقی ہے تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ تاکہ میں گھر والوں کے سامنے اسے بیان کر سکوں؟

جواب:۔ واضح رہے کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس روز مرض سے صحت پائی تھی، لوگ اس خوشی میں کھانا، شیرینی وغیرہ بھی تقسیم کرتے ہیں، اس حوالے سے ہمارے دارالافتاء بنوری ٹاؤن کے سابقہ فتاوی میں ہے کہ: "ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس روز آپ ﷺ مرض سے صحت یاب ہوگئے تھے، اس لیے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں، خصوصاً مزدور طبقہ مالکان سے چھٹی مانگتا ہے، مٹھائی کے پیسے اور عیدی طلب کرتاہے، یہ محض بے اصل اور بدعت ہے، کھانے پینے کی غرض سے لوگوں نے اس کو ایجاد کیاہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صفر کے آخر بدھ کو رسول اللہ ﷺ کے مرضِ وفات کی ابتدا ہوئی تھی۔ دیکھیے: تاریخ ابن اثیر، تاریخِ طبری، البدایہ و النہایہ۔لہٰذا جن لوگوں میں یہ رواج جاری ہے، انہیں چاہیے کہ اس بدعت کو چھوڑ دیں، شریعتِ اسلامیہ کے اَحکام کی پیروی کریں۔

شریعتِ اسلامیہ کے نزدیک ماہِ صفر بھی دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے، ایامِ جاہلیت میں اس ماہ صفر کے بارے میں جو تصور تھا کہ یہ نحوست کا مہینہ ہے، اسلام نے اسے رد کیا ہے، جیسا کہ بخاری و مسلم اور دوسری کتب میں واضح الفاظ میں: ’’ لا صفر و لاطیرۃ‘‘ وغیرہ سے ایامِ جاہلیت کے عقائدِ فاسدہ کی سختی کے ساتھ تردید کی گئی ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ اس بدعتِ قبیحہ کو ترک کردیں، اور ایسے عقائدِ فاسدہ سے توبہ کریں۔ فتاویٰ محمودیہ میں ہے:’’ماہِ صفر کے آخری چار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعًا بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسلِ صحت ثابت نہیں، البتہ شدتِ مرض کی روایت ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں ہے۔ 

یہود کو آں حضرت ﷺ کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر ہے، اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضا ہے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ، کتاب العقائد، باب البدعات و الرسوم، مخصوص ایام کی مروج بدعات کا بیان، (3/279،280) ط: جامعہ فاروقیہ، کراچی)لہٰذا اگر ماہِ صفر کے آخری بدھ میں اس نظریے کے تحت شفا یابی کے لیے کوئی عمل کیا جاتاہے تو یہ بے اَصل ہونے کے ساتھ قابلِ ترک ہے، اگر یہ عمل کرنے والے کا یہ نظریہ نہیں ہے، لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ پہلو غالب ہے اور اس کی اصلاح مشکل ہے تو بھی اس سے اجتناب کیا جائے، بواسیر سے شفا کے لیے یہی عمل کسی اور دن (دن کو لازم سمجھے بغیر) کرلیا جائے۔ 

البتہ اگر عمل کرنے والے شخص کا نظریہ بھی یہ نہ ہو اور عرف میں بھی ماہِ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے رسم یا شفایابی کا نظریہ نہ ہو، بلکہ بطورِ تجربہ اس دن مخصوص اذکار پڑھ کر دم کرنے کے نتیجے میں لوگوں کو شفا ہورہی ہو اور اسے لازم بھی نہ سمجھا جائے اور اس عمل کے لیے اس دن کو مؤثر نہ سمجھا جائے تو آپ کے داداجان کا بواسیر بیماری سے بچاؤ کے لیے یہ عمل ان کے مجربات میں سے ہے، اور ایسے مجربات جو قرآنی تعلیمات کے خلاف نا ہوں ازروئے شرع ان کا کرنا درست ہے، لہٰذا اس صورت میں مذکورہ عمل کرکے پانی پر دم کرکے بطور علاج استعمال کرنا اور لوگوں کو دینا درست ہوگا۔