’’Gandhi vs Jinnah- The Debate over Partition‘‘ نامی کتاب ALLEN HAYES MERRIAM کی تصنیف ہے۔ مصنّف نے ساٹھ کے عشرے کے وسط میں چند برس افغانستان کے دارالحکومت، کابل میں امریکی عُہدے دار کے طور پر گزارے اور اِس عرصے میں کئی بار پاکستان اور بھارت جانے کے مواقع ملے۔ستّر کے عشرے میں مصنّف نے Post Doctoral Research کے سلسلے میں ایک بار پھر بھارت کا سفر اختیار کیا، جہاں رہتے ہوئے لوگوں کے رہن سہن، عادات و اطوار، سیاسی و سماجی معاملات کا گہرا تجزیہ کیا اور اسی کے تسلسل میں ہندوستان کی تقسیم کے عوامل کی کھوج لگائی۔
اُن کی تحریر کردہ کتاب کا عنوان خود گواہی دے رہا ہے کہ اُس کے مندرجات دراصل اس طور ترتیب دیے گئے ہیں، جس سے بیس ویں صدی کے دو بڑے سیاسی رہنماؤں کے افکار و عمل کو تاریخ کے بہاؤ کی روشنی میں دیکھا جا سکے۔کتاب کے آغاز سے پیش تر مصنّف نے سرنامۂ کلام کے طور پر دونوں رہنماؤں کا ایک ایک قول پیش کیا ہے تاکہ کتاب کے مندرجات سے مکمّل واقفیت سے پہلے قارئین دونوں رہنماؤں کے خیالات جان سکیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنّف نے متذکرہ رہنماؤں کے پیش کردہ خیالات کسی مخصوص سال یا وقت کو پیشِ نظر رکھ کر قارئین تک نہیں پہنچائے بلکہ الگ الگ سال کے تحت قارئین کے سامنے لائے ہیں۔دونوں سیاسی رہبروں کے جملوں کی ترتیب مصنّف نے کچھ یوں پیش کی ہے۔’’ دنیا کی کوئی طاقت اب پاکستان کو وجود میں آنے سے نہیں روک سکتی۔‘‘،جناح،1940 ء۔’’ جب تک میری زندگی باقی ہے، مَیں ہندوستان کے بٹوارے پر کبھی رضامند نہیں ہو سکتا۔‘‘،گاندھی،1947ء۔ آئیے، ذرا درج کیے گئے دونوں جملوں کا تجزیہ کریں اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
پیش کیے گئے جملوں میں سے قائدِ اعظم کا کہا گیا جملہ 1940ء کا اور گاندھی جی کا کہا گیا جملہ 1947ء کا ہے۔دونوں جملوں کے درمیان لگ بھگ سات برس کا وقفہ حائل ہے۔ بہتر بات تو یہ ہوتی کہ شخصیات کا موازنہ کرنے کے لیے دونوں رہنماؤں کے ایک ہی وقت یا کم از کم ایک ہی سال میں پیش کیے گئے خیالات سامنے لائے جاتے۔
تاہم، اِتنی بات تو طے ہے کہ کتاب کی ابتدا میں جملے پیش کرنے کا بظاہر مقصد یہی ہے کہ مصنّف دونوں رہنماؤں سے منسوب جملوں کو اُن کی بنیادی حکمتِ عملی پر محمول کرتا ہے اور اُن ہی کی روشنی میں وہ مذکورہ قائدینِ آزادی کے اقوال و عمل کو سامنے رکھ رہا ہے اور اپنے قارئین تک بھی یہی بات پہنچانا چاہتا ہے۔
اِس ضمن میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ مصنّف کے خیال میں محمّد علی جناح 1940ء میں جس سوچ پر کاربند ہو چُکے تھے، 1947ء کے نصف سال(3 جون کو اعلانِ آزادی ہوا)میں اُن کی بات وقت نے ثابت کر دی اور تقسیمِ ہند کی صُورت میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو آزاد ریاستیں وجود میں آ گئیں۔ اس کے برعکس، گاندھی نے، جو 1947ء تک تقسیمِ ہند کی مخالفت کرتے رہے، اپنی زندگی ہی میں اُسے رونما ہوتے دیکھ لیا۔ اگر کچھ دیر رُک کر دونوں رہنماؤں سے منسوب جملوں کے نتیجے پر غور کیا جائے، تو جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ محمّد علی جناح کی کہی گئی بات درست اور گاندھی کی بات غلط ثابت ہوئی۔
بات بظاہر اِتنی سادہ ہے نہیں، جتنی دونوں رہنماؤں کے بیانات میں دِکھائی گئی ہے یا قارئین کے سامنے لائی گئی ہے۔مصنّف نے محمّد علی جناح کی تقریر کا اقتباس دیتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ وہ 1940ء ہی میں اِس بات کا عہد کر چُکے تھے کہ ہر قیمت پر پاکستان بنا کے رہیں گے، یعنی ہندوستان کا بٹوارا کر کے رہیں گے یا باالفاظِ دیگر وہ علیٰحدگی پسند سوچ پر کاربند تھے۔
گاندھی جی سے نسبت دیا گیا جملہ1947 ء کا ہے اور جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ گاندھی آخر وقت تک تقسیمِ ہند کے خلاف رہے اور اس حد تک تقسیم کی مخالفت میں ڈٹے رہے کہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ کم از کم اپنی زندگی میں تو پاکستان کے منصوبے کو رُوبہ عمل نہ آنے دیں گے۔ گویا مصنّف یہ بتانا چاہتا ہے کہ گاندھی جی ہندو، مسلم اتحاد کے داعی تھے۔
دیکھتے ہیں کہ مصنّف کے پیش کردہ اقتباسات سے دونوں سیاسی رہنماؤں کے اپنے اپنے موقف پر آخر تک ڈٹے رہنے کے شواہد کس حد تک پُختہ نظر آتے ہیں۔تاہم، محمّد علی جناح کی سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالنے سے پہلے اِس امر پر غور بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کو 1906ء میں’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کے ممکنہ عوامل کچھ یوں تھے۔
انگریزوں اور ہندوؤں کو نہایت قریب سے جاننے والے اور مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے لانے والے سرسیّد احمد خان اِس حقیقت کو پا چُکے تھے کہ ہندو اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کو ہر عنوان سے پیچھے دھکیلنے کی اپنی حکمتِ عملی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اگرچہ وہ ایک زمانے سے ہندو، مسلم اتحاد، بھائی چارے، تعاون اور مفاہمت کے لیے کام کررہے تھے، تاہم اُردو کے مقابلے میں ہندی کو سامنے لانے کی فرقہ پرست ہندوؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں نے اُنہیں کسی حد تک بددل کر دیا۔ اِس عنوان سے اُنہیں شدید صدمہ 1867ء میں اُس وقت پہنچا، جب بنارس کے ہندوؤں کی جانب سے اُردو کی جگہ ہندی کو عدالتی زبان قرار دلوانے کا مطالبہ سامنے آیا۔
اُس کے بعد سر سیّد رفتہ رفتہ ہندو، مسلم اتحاد کی جانب سے مایوس ہونے لگے۔ نواب محسن الملک کو اپریل 1870ء کو تحریر کیے گئے ایک مکتوب میں وہ رقم طراز ہیں:’’ مجھے ایک اور خبر ملی ہے، جس کا مجھ کو کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو شیوا پرشاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دل میں جوش آیا ہے کہ زبانِ اردو و خطِ فارسی کو، جو مسلمانوں کی نشانی ہے،مِٹا دیا جائے۔ مَیں نے سُنا ہے کہ اُنہوں نے سائنٹیفک سوسائٹی کے ہندو ممبروں سے تحریک کی ہے کہ بجائے اخبار اُردو ہندی ہو۔(حاشیے میں عبارت کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔
یعنی اخبار بجائے اُردو کے ہندی ہو)ترجمۂ کُتب بھی ہندی میں ہو۔یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ ہندو، مسلمان میں کبھی اتفاق نہیں رہ سکتا۔مسلمان ہرگز ہندی پر متفّق نہ ہوں گے اور اگر ہندو مستعد ہوئے اور ہندی پر اصرار کیا، تو وہ اُردو پر متفّق نہ ہوں گے اور نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ ہندو علیٰحدہ (اور)مسلمان علیٰحدہ ہو جاویں گے۔‘‘یہ ایک حقیقت ہے کہ 1885ء میں جب’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی بنیاد رکھی گئی، تو سر سیّد نے مسلمانوں کو اُس میں شرکت سے اِسی لیے دُور رہنے کو کہا کہ وہ ہندوؤں کے مسلمانوں کی جانب روا رکھے جانے والے ناروا سلوک سے اچھی طرح واقف تھے۔
چناں چہ سر سیّد کے تجربے کو مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والوں نے اپنے سامنے رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی کہ انڈین نیشنل کانگریس بنیادی طور پر ہندو مفادات کے تحفّظ کے لیے بنائی گئی ہے اور یہی اُس کا اصل رُوپ ہے۔1905 میں تقسیمِ بنگال کے نتیجے میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو اپنی عددی اکثریت کے باعث ہندو بالادستی سے نکلنے کا موقع ملا۔ہندوؤں کو مسلمانوں کا اُبھرنا اچھا نہیں لگا اور اُنہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تقسیم کو تنسیخ میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی۔
یوں ایک بار پھر مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ ہندو اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان میں غالب رہنے کی کوششوں کو کبھی تَرک نہیں کرے گا۔متذکرہ نکات کے علاوہ ایک طاقت ور محرّک یہ بھی تھا کہ اب مسلمانوں کے ایک طبقۂ فکر میں بدلتے سیاسی و معاشی حالات کے تناظر میں یہ سوچ پروان چڑھ چُکی تھی کہ اپنے قومی، سیاسی و تعلیمی معاملات کے حل کے لیے اپنی قائم کردہ مخصوص جماعت کا وجود ضروری ہے۔
1897ء میں پیدا ہونے والے Nirad C. Chaudhuri ایک ہندو قلم کار اور کئی کتب کے مصنّف تھے۔اُنہوں نے اپنی کتاب’’ The Autobiography of an Unknown Indian‘‘ میں1906ء کے اختتام کا ذکر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے۔’’ ہم نے اپنے بزرگوں کے منہ سے مسلمانوں کے بارے میں ایسے تند و تیز جملے سُننے شروع کیے کہ وہ کُھلے عام تقسیم کی بات کر رہے ہیں اور انگریزوں سے قریب ہو رہے ہیں۔ ہمارے دِلوں میں مسلمانوں کے خلاف بیٹھ جانے والے سخت ناپسندیدگی کے احساسات نے قُربت پر مبنی تعلقات کو ختم کر کے رکھ دیا۔‘‘
مدن موہن مالویہ ہندوستان کے ایک قد آور سیاسی رہنما تھے اور اُنہیں ہندوستان کی سیاست میں اِتنے احترام کا درجہ حاصل تھا کہ وہ’’ پنڈت مدن موہن مالویہ‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے تھے۔ اُنہیں’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے صدر رہنے کا دو بار اعزاز حاصل ہوا۔ 1919ء میں اُن کی تحریروں اور تقاریر کا مجموعہ شائع ہوا، جس میں یہ اعتراف موجود ہے کہ’’کانگریس نے مسلمانوں کو اپنے سے دُور کر دیا‘‘۔
گویا ہندو، مسلم تعلقات میں دراڑ پڑنے اور تقسیم کی راہ ہم وار ہونے کا سلسلہ اگر سر سیّد کی پیش گوئی کو سامنے رکھا جائے، تو 1870ء سے اور Nirad C. Chaudhuri کے اقتباس پیشِ نظر رکھے جائیں، تو 1906ء کے آس پاس سے شروع ہو چُکا تھا اور پنڈت مدن موہن مالویہ کا اعتراف اِس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔
سو، دُوربیں و جہاندیدہ اشخاص ہندو، مسلم مغائرت کی پروان چڑھتی فصل کو برگ و بار لاتا دیکھ رہے تھے۔یہ بات بہت حد تک دُرست ہے کہ23 مارچ1940 ء کو( ممتاز مورّخ کے ۔کے عزیز اسے 24مارچ قرار دیتے ہیں۔ حوالے کے لیے اُن کی مشہور کتاب’’ Murder of History‘‘ دیکھیے )’’ قراردادِ لاہور‘‘ کی منظوری کے بعد مسلم رہنماؤں نے بالعموم اور محمّد علی جناح نے بالخصوص پاکستان کو اپنی منزل قرار دے دیا تھا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ چاہے ہندوستان کی جغرافیائی وحدت میں رہتے ہوئے یا مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کے طور پر ’’پاکستان‘‘ ایک ایسے خطّے کا نام ہوگا، جہاں مسلمان، ہندوؤں سے الگ رہ کر اپنے معمولاتِ زندگی انجام دے سکیں گے۔
گویا یہ بات بڑی حد تک تسلیم کر لی جائے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں اور اُن کے اندر بنیادی معاملات میں بھی قدرِ مشترک تلاش کرنا مشکل ہے۔1916میں’’ لکھنؤ پیکٹ‘‘ یا’’ میثاقِ لکھنؤ‘‘کی منظوری ہندو، مسلم اتحاد کی جانب ایک قدم تھا اور یہ قدم اُٹھانے میں جس شخص کی مساعی سب سے نمایاں اور زیادہ رہی، وہ محمّد علی جناح تھے۔یہی سبب تھا کہ مسز سروجنی نائیڈو نے محمّد علی جناح کو’’ ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ قرار دیا۔
سو، اِس’’ سفیر‘‘ نے اتحاد کی اپنی اَن تھک مساعی جاری رکھی،لیکن کانگریس کی جانب سے ایسی ہر کوشش کو رَد کر دیا گیا۔یوں تو اِس نکتے کی موافقت میں دلائل اور شواہد بہت ہیں،تاہم سرِ دست یونس صمد کے ڈاکٹریٹ پر مبنی مقالے سے ایک اقتباس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس نے محمّد علی جناح اور مسلم لیگ کو خُود سے دُور کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔مصنّف کی کتاب کا نام ہے -Nationalism and Ethnicity in Pakistan,1937-1958:A Nation in Turmoil۔آکسفورڈ یونی ورسٹی کے تحت انجام دی جانے والی اِس تحقیق کی نگرانی کے فرائض Tapan Raychaudhuri نے انجام دیئے۔
یونس صمد تحریر کرتے ہیں۔’’تاہم، بجائے ہندو، مسلم اتحاد کے احیاء کی کوشش کرنے کے،نہرو رپورٹ نے دونوں قوموں کے درمیان نفرت کی فضا کو بڑھاوا دیا۔‘‘مناسب ہوگا کہ اِس عنوان سے یہ بھی بیان کر دیا جائے کہ ممتاز مصنّف، ڈاکٹر اجیت جاوید نے’’ Secular and Nationalist Jinnah ‘‘میں واضح الفاظ میں اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہندو، مسلم اتحاد کی کوششوں کے لیے جناح کی مسلسل کوششوں کا اگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے آتا بھی تو’’ نہرو رپورٹ‘‘ نے ایسے تمام امکانات ختم کر کے رکھ دیئے۔کے۔کے عزیز نے ’’ Murder of History ‘‘ میں یہ دل چسپ تجزیہ کیا ہے۔
’’ نہرو رپورٹ کی اہمیت اِس حقیقت سے اُجاگر ہوتی ہے کہ اُس وقت کوئی دوسری چیز ایسی دِکھائی نہیں دیتی، جس کی مخالفت میں تمام مسلمان متحد ہو گئے ہوں۔‘‘ کے۔ کے عزیز کے تجزیے کی صداقت اِس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ’’ نہرو رپورٹ‘‘ کی مخالفت میں باضابطہ طور پر’’ آل پارٹیز مسلم کانفرنس‘‘ قائم کی گئی۔ موتی لعل نہرو کی تیار کردہ یہ رپورٹ 1928ء میں سامنے آئی تھی۔
چند غیر جانب دار تجزیہ نگار اور تاریخ نویس اِس بات کو تسلیم کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے کہ ’’نہرو رپورٹ‘‘ ہندو، مسلم تقسیم کی جانب ٹھوس قدم تھا اور اِس رپورٹ نے برّعظیم میں’’ ہندو اکثریتی تسلّط‘‘ کا ببانگِ دُہل اقرار کیا تھا، لیکن امن پسند، معاملہ فہم محمّد علی جناح نے اس کے بعد بھی ہار نہیں مانی اور ’’نہرو رپورٹ‘‘ کو مسلمانوں میں قابلِ قبول بنانے کے لیے مارچ 1929ء میں’’ 14 نکات‘‘ کے عنوان سے ترامیم پیش کیں، جو سب کی سب رَد کر دی گئیں۔
گویا یہ بات اب حتمی سمجھی جانی چاہیے کہ لگ بھگ 1930ء تک’’ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر‘‘برّ ِعظیم میں بسنے والی دو بڑی قوموں کے اتحاد کے لیے کوشاں رہا۔تاہم ، 1930-40ء تک کا عشرہ بھی محمّد علی جناح کو ہندو، مسلم اتحاد کی کوششوں سے باز نہ رکھ سکا۔
یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ محمّد علی جناح نے ہندو، مسلم اتحاد کے سلسلے میں کسی بھی مرحلے پر مسلم قوم کے تشخّص کو فراموش نہیں کیا۔ اُنہوں نے اعلیٰ مقتدر حلقوں میں یہ نکتہ شدّومد سے پیش کیا کہ ہندوستان میں انگریزوں اور ہندوؤں کے دوش بدوش ایک تیسری قوّت بھی موجود ہے اور وہ قوّت ہے، مسلمان قوم۔1937ء کے انتخابات میں کانگریس نے کام یابی تو حاصل کی،تاہم کام یابی نہ تو فیصلہ کُن رہی اور نہ ہی یہ کانگریس کے اُس دعوے کے مطابق رہی کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی نمائندہ جماعت ہے۔مذکورہ انتخابات میں مسلم لیگ بحیثیت سیاسی جماعت کوئی متاثر کُن کارکردگی پیش نہ کر سکی۔
گیارہ میں سے سات ریاستوں میں کانگریس نے اپنی حکومت قائم کی۔برّ ِعظیم کی سیاسی فضا کو دیکھتے ہوئے اُس وقت یہ توقّع کی جا رہی تھی کہ انتخابات کے بعد ہندو، مسلم بھائی چارے کو برقرار رکھنے کے لیے مفاہمت کی فضا کے طور پر ایک مخلوط حکومت قائم کی جائے گی، جو بہتر مستقبل کی راہ ہم وار کرنے میں خاطر خواہ مدد دے گی۔ انتخابات جیتنے کے بعد کانگریس کے زعماء کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ مسلم لیگ کے بغیر بھی ہندوستان میں حکومت بنا سکتے ہیں اور مسلم عوام کو اپنا ہم نوا بنا سکتے ہیں۔
محمّد علی جناح نے ایک بار پھر کانگریس کی جانب دستِ تعاون دراز کیا تاکہ ہندو، مسلمان مل جُل کر معاملات چلاسکیں،تاہم گزشتہ برسوں کی طرح اِس کوشش کو بھی حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔ یہی نہیں، جواہر لعل نہرو نے انتخابات جیتنے کے بعد اقتدار کی سرشاری میں’’ Muslim mass contact movement ‘‘ کا آغاز کیا اور اس اُمید کے ساتھ کیا کہ مسلم لیگ کی شکست کے بعد مسلم عوام محمّد علی جناح اور مسلم لیگ کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ تاہم، اُن کی’’ مسلم عوامی رابطہ مہم‘‘ کو خاطر خواہ کام یابی نہ ملی۔
کانگریسی حکومت نے مسلم دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور مسلمانوں کے خلاف ایسی معاندانہ فضا پیدا کر دی کہ اُنہیں یہ یقین ہو چلا کہ ہندو کی بالا دستی کی خواہش کبھی ختم نہ ہو پائے گی اور یوں مسلمان بہت حد تک ہندوستان کے مستقبل سے مایوس ہو چلے۔ممتاز نقّاد، پروفیسر آلِ احمد سرور کی نظر محض ادبی معاملات ہی تک محدود نہیں تھی۔وہ سماجی و سیاسی عنوانات پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے۔’’ ہندوستان کدھر‘‘ کے عنوان سے اُن کے افکار و خیالات جو ممتاز معلّم، ادیب اور دانش وَر،خواجہ غلام السیّدین کے سلسلے میں اُن کے 1980ء میں دیئے جانے والے لیکچر پر مبنی تھے،ایک مجلّے کی صورت میں سامنے آچُکے ہیں۔
مذکورہ لیکچر میں پروفیسر صاحب جہاں جواہر لعل نہرو کے سیاسی تدبّر کو سراہتے ہیں، وہاں اُن کے بارے میں یہ بھی فرماتے ہیں۔’’ آزادی سے پہلے اُنہوں نے تین غلطیاں کیں، جو جذباتیت کی وجہ سے ہوئیں۔پہلی غلطی اُس اعلان میں ہوئی کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں۔ انگریز اور کانگریس۔باقی لوگوں کو اِسی حساب سے صف آرا ہو جانا چاہیے (Others must line up)۔اُن کی مسلم عوام سے رابطے (Muslim Mass Contact)کی اسکیم بُری طرح ناکام ہوئی۔ اُنہوں نے 1937ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت نہ بننے دی۔‘‘
گزشتہ سطور میں چند حوالہ جات کے ساتھ یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ برّ ِعظیم میں صدیوں سے آباد ہندو، مسلم آبادی کے درمیان اجنبیت کی فضا دھیرے دھیرے گہری ہوتی جا رہی تھی۔انگریزوں کی آمد کے بعد مسلمانوں میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ اُنہیں زندگی کے بیش تر معاملات میں نہ صرف یہ کہ نظر انداز کیا جار ہا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر محروم کیے جانے کا عمل جاری ہے۔
تعلیمی پس ماندگی، سرکاری ملازمتوں سے محرومی، معاشی تنگ دستی اور سماجی اجنبیت جیسے چند عوامل نے اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ہندوستان میں اقلیت کی حیثیت میں ترقّی کی دوڑ سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔انگریزوں کے علاوہ ہندو ذہنیت بھی اُن کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آرہی تھی۔ Sir Michael Francis O'Dwyer انڈین سول سروس(I.C.S)میں Irish colonial officer تھے۔1913-19ء تک وہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر رہے۔
امرتسر کا مشہور’’ سانحہ جلیانوالہ باغ‘‘ اُن ہی کے وقت میں ہوا، جب جنرل ڈائر کے حکم پر سیکڑوں نہتّے افراد لقمۂ اجل بنا دیئے گئے۔O'Dwyer کو مارچ 1940ء میں لندن میں ایک انقلاب پسند ہندوستانی، اُدھم سنگھ نے’’ جلیانوالہ باغ‘‘ کے سانحے کے انتقام میں قتل کر دیا۔ O'Dwyer نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔وہ 'India under the Congress', National Review, .July 1939 میں لکھتے ہیں۔’’لوکل بورڈ کے کانگریس کے چیئرمین کی طرف سے Central Provinces کے تمام اُردو اسکولز کے ہیڈ ماسٹرز کو، جہاں مسلمان بچّے پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے، یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ طلبہ کو حکم دیا جائے کہ وہ گاندھی کی تصویر کی پوجا کریں۔‘‘
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کانگریس کی مرکزی قیادت کی طرف سے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا تھا اور اِس قسم کی حرکتیں صرف مقامی قیادت اپنے بل بُوتے پر کر رہی تھی، پھر بھی یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ مسلمانوں کے لیے فضا سازگار نہیں تھی۔1937ء کے انتخابات کے بعد کانگریس اور اُس کی وزارتوں کی جانب سے مسلم دشمنی کے روّیے کو سامنے رکھتے ہوئے محمّد علی جناح نے مسلم لیگ کی تنظیمِ نَو پر ساری توجّہ مرکوز کی اور محض دو سے تین برس کے اندر پورے برّصغیر میں مسلم لیگ ایک متحرّک، فعال اور نصب العین پر کاربند رہنے والی جماعت بن گئی۔
ایک ایسی جماعت ،جس کے سربراہ کے محض ایک اشارے پر لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آتے۔اِس بات کا ثبوت اُس وقت سامنے آیا، جب کانگریس نے 1939ء میں وزارتوں سے علیٰحدگی اختیار کی۔ محمّد علی جناح نے اُس روز، یعنی 22دسمبر1939کو، لوگوں سے’’ یومِ نجات‘‘ منانے کی استدعا کی،جس کا مسلمانوں کی جانب سے والہانہ انداز میں جواب دیا گیا۔
1940ء میں پیش کردہ’’ قراردادِ لاہور‘‘بہت حد تک برّ ِعظیم کے مسلمانوں کے لیے مستقبل کے لائحۂ عمل کا مضبوط ترین پہلو تھی۔اِس راہ سے اُنہیں اپنی منزل دِکھائی دینے لگی تھی،جو اگر بہت قریب نہ سہی،انتہائی دُور بھی نہیں تھی۔1942ء میں’’ Cripps Mission‘‘ہندوستان آیا۔اگرچہ مشن کا مقصد جاپان کے خلاف برّ ِعظیم کے دفاع کے لیے ہندوستان کا تعاون حاصل کرنا تھا،تاہم مشن جزوی حد تک پاکستان کے مطالبے کی تائید بھی رکھتا تھا۔
اِس کے لیے مشن نے کچھ متبادل تجاویز پیش کیں،جسے مسلم لیگ نے رَد کر دیا۔ اُسی سال گاندھی جی کی’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک سامنے آئی، جس کے نتیجے میں کانگریس کی اعلیٰ قیادت کو قید و سلاسل کا منہ دیکھنا پڑا۔ قائدِ اعظم نے اپنی حکمتِ عملی کے تحت مسلم لیگ کو مذکورہ تحریک سے لاتعلق رکھا۔1944ء میں گاندھی، جناح مذاکرات کا طویل دَور ہوا، تاہم معاملات بے نتیجہ رہے۔ جون 1945ء میں برطانیہ نے مرکزی سطح پر ہندوستان میں عارضی حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی۔
وائسرائے، لارڈ ویول نے متعلقہ جماعتوں پر مبنی کانفرنس بُلائی تاکہ بات چیت کی جا سکے۔ یہ’’ شملہ کانفرنس‘‘ کے نام سے مشہور ہے،تاہم نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ کانفرنس کی ناکامی کا سبب مسلمانوں کی نمائندگی کا سوال تھا، کیوں کہ کانگریس بھی اس کی دعوے دار تھی۔
مسلم لیگ کی جانب سے مطالبہ ہوا کہ مسلم نمائندگی کے دعوے کے حق کو جانچنے کا طریقہ یہی ہے کہ مُلک میں انتخابات کروائے جائیں تاکہ اِس بات کا ہمیشہ کے لیے تعیّن ہو سکے کہ کون سی جماعت برّ ِعظیم کے مسلمانوں کی بہتر نمائندگی کا حق رکھتی ہے۔
طے ہوا کہ اگلے موسمِ سرما میں انتخابی معرکہ منعقد کیا جائے۔سو،1945-46ء کے انتخابات دونوں ہی جماعتوں کے لیے فیصلہ کُن تھے۔مسلم لیگ کے لیے یوں کہ اُسے اپنے حریفوں پر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کہلائے جانے کی حق دار ہے، جب کہ کانگریس کے لیے یوں کہ اُسے یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کانگریس کے ساتھ ہے اور وہ یہ دعویٰ اس بنیاد پر کرتی تھی کہ اُس دَور کے نمایاں ترین مسلمانوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس سے نہ ختم ہونے والے رشتے میں بندھے تھے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسلمان ایسے تھے، جو مسلم لیگ کے مخالف تھے۔
ان میں کمیونسٹ، سوشلسٹ بھی تھے، ترقّی پسند اور شاعر و ادیب بھی۔ یہی نہیں، چوٹی کے سربرآوردہ مذہبی رہنماؤں میں سے اکثر قائدِ اعظم کے خلاف تھے۔ ایسے نمایاں افراد میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا حسین احمد مدنی تھے،جنہوں نے اکتوبر 1945ء میں فتویٰ جاری کیا کہ مسلمانوں کے لیے مسلم لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے۔مولانا عطا اللہ شاہ بخاری اپنے جلسوں میں قائدِ اعظم محمّد علی جناح کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرتے۔ علّامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی جانب سے قائدِ اعظم محمّد علی جناح کو قتل کرنے کی دو بار کوششیں کی گئیں۔
مولانا مودودی، مجلسِ احرار کے مظہر علی اظہر نے سخت مخالفت کی۔علّامہ شبّیر احمد عثمانی پاکستان بننے سے دو سال قبل تک قائدِ اعظم اور مسلم لیگ کے خلاف تھے۔ غرض، محمّد علی جناح کے خلاف مخالفت کا ایک بازار گرم تھا۔چومکھی لڑنے کے باوجود محمّد علی جناح نے کسی بھی لمحے جدوجہدِ آزادی کی شمع کی لَو ماند نہ پڑنے دی۔ اسی کے ساتھ ہندو، مسلم اتحاد کی کوششوں کو بھی کبھی تَرک نہ کیا۔ انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ کو فقید المثال کام یابی حاصل ہوئی۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب رہی کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا اعزاز صرف اُسے ہی حاصل ہے۔
اگلا مرحلہ عبوری حکومت کا قیام تھا۔19فروری 1946ء کو برطانوی وزیرِ اعظم Clement Attlee نے ہاؤس آف کامنز میں بیان دیا کہ ہندوستان کے مستقبل کے فیصلے کے لیے ایک وفد روانہ کیا جا رہا ہے۔ یوں 24مارچ 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان ہندوستان پہنچا۔ آنے والے مشن کے ارکان کی تعداد تین تھی، جن میں Secretary of State for Indiaمسٹر Pethick Lawrence،President of the Board of Trade مسٹر Stafford Cripps اور First Lord of Admiraltyمسٹر A.V. Alexander شامل تھے۔
مشن کا مقصد منتخب نمائندوں سے آئین ساز اسمبلی کے قیام کے لیے مذاکرات کرنا اور آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا تھا۔ارکان نے کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں، جن کا مقصد عبوری حکومت کا قیام اور ہندو، مسلم اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو کسی متفّقہ راستے پر لے کر آنا تھا۔
مشن نے ہندوستان کی سیاسی صُورتِ حال اور نظر آنے والے بھونچال کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اپنی سفارشات میں تجویز کیا کہ مرکزی حکومت صرف خارجہ، دفاع اور مواصلات کے اُمور دیکھے، جب کہ دیگر معاملات اُن تین گروپس میں تقسیم کر دیئے جائیں، جن کو برّ ِعظیم کا حصّہ ہونا ہے۔ دو گروپ شمال مغربی اور شمال مشرقی مسلم اکثریتی علاقوں، جب کہ تیسرا گروپ ہندو اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا۔6جون 1946ء کو مسلم لیگ نے’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ منظور کر لیا۔وہ پلان جس میں’’ پاکستان‘‘ نہیں تھا۔
ایک ہندوستانی سیاست کار اور سفارت کار، سدھیر گھوش، جنہیں گاندھی جی کا ایلچی رہنے کا اعزاز حاصل ہوا، اپنی کتاب’’ Ghandhi's Emissary ‘‘ میں رقم طراز ہیں۔’’ اس کے باوجود کہ مسٹر جناح نے پلان( کیبنٹ مشن پلان)کو خاصی جلدی قبول کر لیا، کانگریس نے اس پلان کو تفصیل سے جانچنے کے لیے چالیس دن لگا دیئے۔‘‘کانگریس کی جانب سے پلان کو رَد کرنے کے بعد مسلم لیگ بھی اس پر کاربند رہنے کی مکلّف نہ رہی۔Partition of India: Legend and Reality کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب کے مصنّف، H.M.SEERVAI ہیں اور اس کے مندرجات میں بہت کچھ غور و فکر کا سامان ہے۔
سرِ دست تو اس کے دیباچے کا ایک جملہ پیشِ خدمت ہے۔ مصنّف تحریر کرتے ہیں:’’Wavell نے گاندھی اور نہرو سے بار بار کہا کہ کیبنٹ مشن پلان کو بہ طور ایک’’ایوارڈ ‘‘نافذ ہونا چاہیے، جو ہندوستان کو متحد رکھنے کا آخری موقع ہے۔ مگر اُس مشورے کو نظر انداز کر دیا گیا۔‘‘اُس محمّد علی جناح نے جو ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر تھا، ہر ہر قدم پر ہندو، مسلم اتحاد کو برقرار رکھنے کوششیں جاری رکھیں، یہاں تک کہ 1946ء کے انتخابات جیتنے کے بعد، جو پاکستان کے مطالبے کی بنیاد پر لڑے گئے، ہندوستان میں رہنا قبول کر کے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ صلح جُو، تصفیہ پسند، معاملہ فہم رہنما تھے۔ وہ 1916ء میں بھی صلح جُو، معاملہ فہم تھے اور 1946ء میں بھی۔
یہی نہیں،1947ء میں بھی رویّہ صُلح جوئی کا عکّاس تھا۔ جب پاکستان کی پہلی کیبنٹ بنائی گئی، تو اُس میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر قوموں کو بھی نمائندگی دی گئی۔11اگست 1948ء کو دستور ساز اسمبلی میں بھی اُسی سوچ کا اظہار کیا گیا کہ ریاست کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور مذہب، فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ غرض، محمّد علی جناح ہر لحظہ اپنے رویّے میں لچک کا مظاہرہ کرتے رہے۔
گاندھی جی نے 1947ء میں کہا تھا۔’’ جب تک میری زندگی باقی ہے، مَیں ہندوستان کے بٹوارے پر کبھی رضامند نہیں ہو سکتا‘‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کو بٹوارے سے روکنے کے لیے آنے والے’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ پر عمل کرنے میں اُنہوں نے کس حد تک لچک کا مظاہر ہ کیا؟ہندوستان کی تقسیم کو’’ گئو ماتا کی تقسیم‘‘ قرار دینے والوں نے’’ تقسیمِ ہند‘‘ کو روکنے میں کس حد تک کشادہ دلی اور ایثار کا مظاہرہ کیا؟ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
صلح کی کوشش یک طرفہ نہیں ہوا کرتی۔ساتھ رہنے اور مل کر آگے بڑھنے کے لیے فریقین کو اپنے اپنے مؤقف سے کسی نہ کسی حد تک دست بردار ہونا ہی پڑتا ہے۔برّ ِعظیم کی تقسیم روکنے کے لیے کس نے کس حد تک کوششیں کیں، اس کا جواب کوئی تاریخ نویس نہیں، بلکہ تاریخ خود دے رہی ہے۔