تفہیم المسائل
سوال: پہلی بیوی کا کچھ ایسا معاملہ ہوا کہ اس کی کوئی اطلاع نہیں کہ وہ مرگئی یاگمشدہ ہے، کچھ عرصہ بھی گزر گیا، کافی کوشش کی لیکن کوئی معلومات نہیں مل سکیں، اگر وہ شوہر اس دوران اپنی خواہر نسبتی (سالی) سے نکاح کرلیتاہے اور اس کے کچھ عرصہ بعد پہلی بیوی بھی آجاتی ہے تو اس صورت میں شریعت کاحکم کیاہوگا، وہ دونوں بہنوں میں سے کسے نکاح میں رکھے اور کسے طلاق دے یا تفریق کرے ؟(محمد سلمان ، کراچی)
جواب: نکاح کے بارے میں شریعت کے بیان کردہ اصولوں میں سے ایک ’’جمع بین المحارم‘‘ ہے یعنی اگر کوئی شخص دوسرانکاح کرنا چاہتا ہے ، تو اپنی بیوی کی ایسی قرابت دار محرم خواتین سے نہیں کرسکتا کہ ان میں سے ایک کو مرد فرض کیاجائے تو دوسری اس پر حرام ہو ، مثلاً : دو بہنیں ،پھوپھی بھتیجی، خالہ بھانجی، ایسی عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کرسکتا ،بلکہ اگر اپنی بیوی کو طلاق دےدے ،تو جب تک اُس کی عدت پوری نہ ہوجائے ، اُس مُطلّقہ بیوی کی بہن ، بھتیجی یا بھانجی سے نکاح نہیں کرسکتا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’ اور(تم پر حرام کیا گیا ہے) کہ تم دوبہنوں کو (نکاح میں) جمع کرو ،(سورۂ نساء:23)‘‘۔
اس طرح کے مسائل نادرالوقوع ہیں، ایسا کوئی معاملہ ہو تو شوہر پر لازم ہے کہ تمام ممکنہ ذرائع سے اپنی بیوی کو تلاش کرے،آج کل سوشل میڈیا بھی معلومات کی ترسیل کے لیے بہت مؤثر ہے،پھر اگر اس کی کوئی خبر نہ ملے اور اس مذکورہ شخص کا ارادہ لاپتا بیوی کی بہن (سالی) سے ہی نکاح کاہے ،تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ لاپتا بیوی کو ایک طلاق دے دے اور عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد سالی سے نکاح کرلے،عورت تو پابند ہے کہ شوہر جب تک طلاق نہیں دے گا ،وہ دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی ، نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے یا اگر وہ مطلقاً بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردے ،تو عورت خود کو طلاق دے سکتی ہے۔
آپ نے ایک امکانی صورت دریافت کی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی لاپتا بیوی کو طلاق دیئے بغیر سالی سے نکاح کر لیاجو کہ شرعاً حرام ہے،کچھ عرصہ بعد پہلی بیوی آجائے تو کیا کرے ، اس کا حکم یہ ہے کہ دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں، جس بہن سے بعد میں نکاح کیا ، وہ نکاحِ فاسد ہے، پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی مرد اُس وقت تک پہلی بیوی کی بہن سے نکاح نہیں کرسکتا ،جب تک پہلی بیوی عدت میں ہے، علامہ نظام الدین مزید لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ اور اگر دو بہنوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا، تو جس سے بعد میں نکاح کیا، وہ (نکاح)فاسد ہوگا اور مرد پر واجب ہے کہ اس سے فوراً علیحدگی اختیار کرلے، (اگر قاضی کو علم ہوجائے) تو وہ تفریق کردے، پس اگر مباشرت سے پہلے تفریق کی تو اس کے لیے کوئی حکم ثابت نہیں ہے، اگرمباشرت کے بعد تفریق ہوئی، تو عورت کوطے شدہ مہر یا مہرمثلمیں سے جو کم ہو، وہ دیا جائے گااور اس پر عدت لازم ہوگی ، (اور اگر تفریق کے وقت وہ حاملہ ہے اوربچہ پیدا ہو تو) ثابت النسب ہوگا اور اپنی(پہلی) بیوی سے دور رہے گا، جب تک اس کی بہن کی عدّت پوری نہ ہوجائے،’’محیط سرخسی ‘‘میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1ص: 277، 278)‘‘۔
اگر خاتون حاملہ ہوجاتی ہے ،تواس بچے کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوگا اورخاتون پر عدت گزارنا (حاملہ ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش تک کا عرصہ اور اگر بچے کی پیدائش پہلے ہوچکی ہے تو تین حیض گزرنا)لازم ہے اور ( مہرِ مثل اور نکاح میں طے شدہ مہر میں سے جو کم ہے )وہ مہر دینا لازم ہے، نیز پہلی بیوی سے اس وقت تک قربت اختیار نہیں کرسکتا ، جب تک اُس کی بہن (سالی)کی عدت نہ پوری ہوجائے ۔( واللہ اعلم بالصواب )