آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: جی پی فنڈ کا شرعی حکم کیا ہیں، مزید یہ کہ اگر یہ جائز ہے جواز کی شرائط کیا ہیں؟
جواب: جی پی فنڈ کی مد میں ملازم کی تنخواہ میں سے حکومت لازمی طور جو رقم کاٹتی ہے،پھر اس کے ساتھ حکومت اپنی طرف سے رقم ملاتی ہے،پھر دونوں رقوم کو بینک میں رکھواکر انٹرسٹ شامل کرکے ملازم کے ریٹائر منٹ کے بعد تینوں قسم کی رقوم ملازم کو واپس ادا کی جاتی ہے ،ان کا لینا ملازم کے لیے شرعاً درست ہے، یہ اضافی رقم خواہ حکومت کی طرف سے سے ملائی ہوئی ہو یا انٹرسٹ ہو ،یہ ملازم کے حق میں سود نہیں، بلکہ ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہے، اس لیے کہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کی محکمہ کو اجازت نہیں دی تھی، اور اگر اجازت دی تھی تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں، اس لیے کہ یہ اجازت ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے۔
البتہ جی پی فنڈ میں کٹوتی اختیاری ہو تو جتنی رقم تنخواہ سے کاٹی گئی ہے اور جو رقم ادارے کی طرف سے ملائی گئی ہے ،وہ لینا جائز ہوگا، ان دونوں رقموں پر جو رقم اضافی ملتی ہے ،وہ لینا جائز نہیں ہوگا۔
جواہر الفقہ میں ہے:"جب یہ ثابت ہوگیا کہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم نہ ملازم کی مملوک ہے اور نہ فی الحال اس کے تصرفات اس میں نافذ ہیں تو محکمہ اس رقم کے ساتھ جو معاملہ بھی کررہا ہے ،اپنی ملک میں کررہا ہے، ملازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور جس طرح بتصریحِ بحر ملازم کے تصرفات بیع و شراء اس رقم میں شرعاً معتبر نہیں، اسی طرح اس رقم میں ملازم کی طرف سے معاملہ ربوٰا ناممکن اور غیر معتبر ہے، اور اس رقم میں محکمہ کے جملہ معاملات کی ذمہ داری خود محکمے پر ہی عائد ہوتی ہے، ملازم پر نہیں، محکمہ کے یہ تصرفات نہ ملازم کے مال مملوک میں ہیں اور نہ ان میں محکمہ ملازم کا وکیل ہے۔
لہٰذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتاہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے ( یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ جو سالانہ سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے ) تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یک طرفہ عمل ہے، کیوں کہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں، اس لیے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے۔
بناء بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادہ/اضافی اپنی طرف سے دے رہا ہے ،اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی، خواہ محکمہ نے اس کو سود کا نام لے کر دیا ہو۔" (پراویڈنٹ فنڈ پر سود کا مسئلہ، ج:ـ3، ص:277، مکتبہ دارالعلوم کراچی )