• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماحولیات کا تحفظ اور شجر کاری کی اہمیت

ڈاکٹر نعمان نعیم

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کائنات کا حُسن وجمال اس کی قدرتی و فطری آب و ہوا میں ہے اور انسان کے فطرت سے سرِموانحراف کی صورت بھی زمین و آسمان میں فساد و بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت ہی کا ایک مظہر ہے کہ جہاں انسانوں اور دوسرے جان داروں کو اور بہت سی نعمتیں دی گئی ہیں، وہیں اُنہیں سازگار ماحول بھی عطا کیا گیا ہے۔ 

کئی ایسی چیزیں پیدا کی گئیں ، جو کثافتوں کو جذب کرلیتی ہیں اور ماحول کو مختلف النّوع آلودگیوں سے بچاتی ہیں، لیکن انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جان دار و بے جان وسائل کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود بھی ماحولیات کے تحفّظ کا اہتمام کرے اور ایسے امور سے بچے، جن سے فضا، زمین یا پانی وغیرہ کے آلودہ ہونے کے امکانات ہوں۔ 

کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ جنگلات کی بے تحاشا کٹائی، دریاؤں میں فضلات کے بہاؤ، پُرشور سواریوں ، مشینوں کے استعمال اور اسی طرح کی مختلف سرگرمیوں ہی کی وجہ سے ماحولیات میں عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ آلودگی بڑھ رہی ہے اور طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

یہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کو آلودہ کرنے والے غیر قدرتی عوامل پائے جاتے ہیں، وہیں ربِ کائنات نے ماحولیاتی کثافتوں کو جذب کرنے والے اہم ترین ذرائع بھی پیدا کر رکھے ہیں۔ زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینے میں دفن کرلیتی ہے۔

قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والے دینِ اسلام نے جہاں موجودہ دَور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے، وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا حل بھی موجود ہے۔ محسنِ انسانیت، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے شجر کاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شُمار ہوگا۔ (صحیح بخاری)۔

شجر کاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے حضور اکرم ﷺنے فرمایا،’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور وہ اُسے لگا سکتا ہو، تو زمین میں بوئے بغیر کھڑا نہ ہو۔‘‘ (مسندِ احمد)

ایک اور حدیث میں ہے، ’’جو کوئی پودا لگائے، پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے، یہاں تک کہ وہ درخت بن کر پھل دینے لگے، وہ اس کے لیے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔‘‘ (مسند احمد)

عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا، ’’جو بیری کا درخت کاٹے گا، اُسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنّم میں ڈالےگا۔‘‘ (سنن ابو داؤد)

آپ ﷺ نے جہاں عام حالات میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی، وہیں دورانِ جنگ بھی نہروں کو آلودہ کرنے اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر نہ صرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی، بلکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔ 

سیّدنا علیؓ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں، ’’حضور نبی اکرم ﷺجب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے، تو یوں ہدایات دیتے، ’’کسی بچّے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا۔‘‘ (بیہقی)

درج بالا احادیث کی روشنی میں شجر کاری کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا جارہاہے ، شجر کاری نہ صرف ایک صدقہ و ثواب کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کے ذریعے گلوبل وارمنگ ، ہیٹ اسٹروک جیسے سنگین مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہیں گیا تو یہ دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور اس کا حل ہے تو صرف اور صرف درخت اور شجرکاری۔ درخت سے گلوبل وارمنگ کو زیر کیا جاسکتا ہے ، مگر افسوس آج بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلی ہیں۔

اہل علم نے شجر کاری کو صرف صدقہ ہی نہیں، بلکہ صدقہ جاریہ قرار دیا ہے، صدقہ جاریہ سے مراد وہ صدقہ ہے جس کا اجرو ثواب دنیا سے جانے کے بعد بھی جاری رہے۔ چناںچہ اس سلسلے میں رسول اللہﷺ کی حدیث پیش خدمت ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’سات اعمال کا اجر مرنے کے بعد قبر میں بھی جاری رہتا ہے۔

(۱)علم سکھانا (۲)نہر جاری کروانا (۳)کنواں کھدوانا (۴)کھجور(درخت) لگانا (۵)مسجد کی تعمیر کروانا (۶)تعلیم و تعلّم کا عمل ،(کسی کو قرآن کریم ، تعلیمات نبویﷺ اور دینی علوم کی تعلیم دینا)(۷)ایسی اولاد چھوڑ جانا جو والدین کے لیے ان کے جانے کے بعد بھی استغفار(دعا) کرتی رہے۔( بیہقی)

سنن ابو داؤد اور نسائی میں ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی بیری کو کاٹ ڈالا، اللہ تعالیٰ اس کے سر کو جہنم میں لٹکائیں گے۔ شارحین حدیث نے اس حدیث کی وجہ سے دوسرے کے درخت کو بلا اجازت کاٹنے کو منع کیا۔ بعض فقہاء نے فرمایا، یہ وعید ایسے درخت سے متعلق ہے جس کے سایہ یا پھل سے انسان اور جانور نفع اندوز ہوتے ہوں، اس لیے کہ ایسے درخت کا ظلماًکاٹنا حرام ہے۔ 

بعض اہل علم نے جنگلات اور درخت کاٹنے کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ ان کا استدلال اس آیت سے ہے: ’’ اور جب اٹھ کرجاتا ہے تو زمین میں اس کی دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ و ہ اس میں فساد مچائے، اور فصلیں اور نسلیں تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔(سورۃ البقرہ) معلوم ہوا کہ بلاوجہ جنگلات اور درختوں کو کاٹنا فساد فی الارض اور گناہ کاعمل ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے درختوں اور درختوں کے مختلف الگ ذائقوںکو اپنی نشانی قرار دیا ہے ملاحظہ ہو:’’ اور زمین میں مختلف قطعے ہیں جو پاس پاس واقعے ہوئے ہیں اور انگور کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں، جن میں سے کچھ دہرے تنے والے ہیں، اور کچھ اکہرے تنے والے۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں، اور ہم ان میں سے کسی کو ذائقے میں دوسرے پر فوقیت دے دیتے ہیں۔یقیناً ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں‘‘۔ (سورۃ الرعد)

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے درختوں کو اپنی نعمتوں میں سے ایک نعمت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا:’’ بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا ؟ پھر ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اگائے، تمہارے بس میں نہیں تھا کہ تم ان کے درختوں کو اُگا سکتے۔ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ نہیں! بلکہ ان لوگوں نے راستے سے منہ موڑ رکھا ہے‘‘۔(سورۃ النمل)

رسول اللہ ﷺ نے شجر کاری کو ایسا نیک عمل قرار دیا ہے جس کا اجر انسان کو دنیا سے جانے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے، صحیح مسلم میں حدیث ہے:’’جو بھی مسلمان درخت لگائے یا کھیت کاشت کرے، پھر اس سے انسان، جانور، پرندے کھائیں، تو اس کے بدلے اسے صدقہ کا ثواب ملتا ہے ‘‘۔

مسند احمد کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوالدرداءؓ دمشق میں شجر کاری فرمارہے تھے، ان کے پاس ایک شخص گزرا اور کہنے لگا کہ آپ صحابی رسولؐ ہوکر یہ عمل کر رہے ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کرو، اس سلسلے میں، میں تمہیں رسول اللہ ﷺکا طریقہ بتاتا ہوں۔ میں نےرسول اللہﷺ سے سنا کہ جس شخص نے درخت اُگایا، اس سے انسان یا کسی اور مخلوق نے کھایا تو یہ لگانے والے کے لیے صدقہ ہوگا۔

حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو مسلمان درخت اُگاتاہے، پھر اس میں سے جتنا حصّہ کھالیا جائے، وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو اس میں سے چوری کرلیا جائے، وہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے۔ 

یعنی اس پربھی مالک کو صدقے کا ثواب ملتا ہے اور جتنا حصّہ اس میں سے چرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے، اور جتنا حصّہ اس میں سے پرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے، (غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ بھی پھل وغیرہ لے کر کم کردیتا ہے، تو وہ اس درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتاہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔

شجرکاری اور درختوں کی اسی افادیت کے پیشِ نظر آپﷺ نے ایسے درخت وغیرہ جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

ملک بھر سے تیزی کے ساتھ جنگلات کا خاتمہ باغات میں کمی قومی المیہ ہے۔ اسی سبب سے گرمی کا اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔دوسری جانب جنگلات کے خاتمے سے حیوانی زندگی کا خاتمہ ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے نہ صرف زندگی اجیرن بنتی جارہی ہے، بلکہ برف پوش پہاڑ اور گلیشئر بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے ایک طرف غیر متوقع غیر موسمی سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ 

دوسری جانب درجہ حرارت میں بھی مزید اضافہ ہونے لگا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ شجرکاری کی مہم کو تیز سے تیز تر کیا جائے، نیز جنگلات کی حفاظت کا مؤثر انتظام ہو، درخت لگانا صرف حکومت کی ہی نہیں ،بلکہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے، شجر کاری اپنے گھروں کی فارغ زمین، خالی پلاٹوں، زرعی زمینوں میں کی جاسکتی ہے، یہ سلسلہ آخرت کے ساتھ دنیا کے لیے بھی رزق اور نفع کا ذریعہ ہے۔ عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے سیدنا عباسؓ سے فرمایا کہ اپنے بیٹوں کو حکم کرو کہ درختوں کی کاشت کریں اس سے فقر دور ہوگا۔

آج پوری دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے جتنے بھی مسائل ہیں، قرآن و حدیث میں اُن سب کا حل موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امَر کی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور بیدار کیا جائے۔