کراچی (سید محمد عسکری) ماحولیات کے ماہرین نے کہا ہے کراچی میں سڑکیں بارش کے پانی سے نہیں بلکہ گٹر کے پانی میں ڈوب کر تباہ ہورہی ہیں، کراچی شہر کا ماسٹر پلان بنایا جائے، گندگی ختم کی جائے، شہر سے کچرا اٹھانے کا نظام وضع کیا جائے اور آلودگی ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتہ کو کراچی سٹیزن فورم کے تحت پاکستان میڈیکل ایسوسی ہاؤس میں منعقدہ سیمینار سے کیا جس کا موضوع ’کراچی کو موسمیاتی تبدیلی کے خوفناک خطرات سے بچانا‘ تھا۔ مقررین میں مسعود لوہارمحمد توحید، محمود عالم، ارشد جونیجو، ڈاکٹر قیصر سجاد اور نرگس رحمان شامل تھیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مسعود لوہار نے کہا کہ صدر میں آج کی تاریخ میں ایئر کوالٹی 300سے زائد ہے، جو بہت تکلیف دہ صورتحال ہے، شہر بڑی بڑی عمارتیوں کے باعث کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے۔ کراچی میں 7لاکھ درخت اور 6لاکھ مینگروز ہیں انھوں نے کہا کہ اگر زیادہ بارش ہوئی تو ڈیفنس سوسائٹی کے کئی فیسز ڈوب جائیں گے۔آلوگی سے کراچی کی 80فیصد میرین لائف ختم ہوچکی ہے۔محمد توحید نے کہا کہ شہر کی آبادی سے متعلق اصل اعداد شمار ہی نہیں جو ادارے کراچی میں بنیادی سہولتیں فراہم کررہے ہیں ان کے مطابق کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے جب کہ مردم شماری کے مطابق دو کروڑ کے قریب ہے۔ 1996ء تک برساتی نالوں سے پانی بہہ جاتا تھا، لیکن بعد تعمیرات نے صورتحال بدل دی، ملیر ندی میں صاف پانی تھا اس میں سیورج لائن ڈال دی۔ شہر میں کچرا اٹھانے کا کوئ انتظام ہی نہیں ہے ہر طرف کچرا ہے جس سے آلودگی پھیل رہی تھی۔ محمود عالم نے کہا کہ 2000سے لے کر 2019 تک ھیٹ ویوو سے 5لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ 2024 تاریخ کا وہ سال ہے جس میں دینا کے چار براعظم جون میں شدید گرمی سے متاثر ہوئے جب کہ کراچی میں حالیہ گرمی کے دو ڈھائی ماہ میں ہزاروں ہلاکتیں ہوئ ہیں مگر رپورٹ نہیں ہوئیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹ ہے سالانہ درجہ حرارت میں سالانہ اضافہ 1.1ہے جبکہ پاکستان میں درجہ حرارت 1.4سے لے کر 1.6ہورہا ہے اور اس میں سب سے زیادہ متاثر کراچی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آلودگی ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے ان علاقوں میں شجر کاری کی جائے جہاں بجلی پانی کے مسائل ہیں تاکہ انھیں درختوں سے سایہ مل سکے۔ارشد جونیجو نے کہا سائنسدانوں کو علم نہیں ہے کہ موسم میں اچانک تبدیلی کیوں آئی اور پوری دنیا میں گرمی کیوں پڑی۔ میٹرولوجیکل سائنسز ہر 10 برس بعد بدل جاتا ہے آئندہ 10برس کے لیے یہ متعدل ہوگ۔ عرفان پردیسی نے کہا کہ شہر کا برا حال ہے بیڈ گورنس ہے اس وجہ سے ہم اس صورتحال سے دوچار ہیں اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔نرگس رحمان نے کہا کہ کراچی کا ماسٹر پلان بنایا جائے، سی ایم ماحولیات کو بہتر نہیں بنانا چاہتے ہیں۔ اتنے بڑے شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں ، سڑکیں گٹر کے پانی سے ڈوب رہی ہیں۔ ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ کراچی فضائ آلودگی سے تباہ ہورہا ہے، ماحول میں اکسیجن کی تعداد مناسب نہیں ہے جس سے سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، ہر طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں ہیں ہر روز 30 ہزار ٹن کراچی میں پیدا ہوتا ہے جس میں صرف 60 فیصد اٹھایا جاتا ہے اور 40فیصد اٹھایا نہیں جاتا جلا دیا جاتا ہے جس سے خطرناک آلودگی پھیلتی ہے ایسی طرح جنریٹر بھی آلودگی پھیلاتا ہے جبکہ صنعتیں بھی آلودگی پھیلا رہی ہیں جس کی وجہ مہلک امراض میں اضافہ ہورہا اور سائنس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔