• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

قرآن کریم میں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ عمل صالح کرنے والے اہلِ ایمان کو ضرور زمین میں جانشین بناتا رہے گا۔ جیسا کہ وہ اس سے پہلے کرتا رہا ہے۔ اور اس خطۂ ارضی میں ان کے دین کو قائم کردے گا ، اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ شرط یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت اور فرماں برداری کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ 

کسی چیز کا غلط استعمال اس کی ناشکرگزاری ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی خطۂ زمین دین اسلام کو قائم کرنے کے لئے ملے اور پھر وہاں اسے قائم کرنے کی کوشش نہ کی جائے، بلکہ غیر اسلامی خیالات و رجحانات کو فروغ پانے کا موقع دیا جائے تو یہ بھی اس کی ناشکرگزاری ہوگی۔

کون انکار کر سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس لئے معرضِ وجود میں آیا کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان اپنے لئے ایک ایسی مملکت کی بنیاد رکھنے کا عہد کر چکے تھے کہ جہاں وہ اللہ کی کبریائی کو بلند کرسکیں اور اسلام کا نظام حیات نافذ و غالب کر سکیں۔ 

پاکستان لاالہٰ الا اللہ کے نعرے پر ہی وجود میں آیا تھا۔ یہ گویا بالواسط ہم سب کی طرف سے اللہ سے ایک عہد تھا کہ اے اللہ ،پاکستان اسلام کے لئے وقف ہوگا۔ اس نعرے کی رو سے ہم سب نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان قائم ہو جانے کے بعد ہم اسلامی نظامِ حیات کا کام اپنے ذمہ لیں گے۔ پاکستانیوں کی قومیت اسلام ہوگی۔ پاکستان اسلام کا مظہر اور اسلام کو پھیلانے کا ذریعہ ہوگا۔اللہ نے ہماری دعا قبول فرمائی اور ہمیں پاکستان عطا کر دیا۔

ہم اپنے وطن پاکستان سے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ یہ روحِ اسلام کا مظہر ہے۔ اس دور میں یہ اسلام کی تجربہ گاہ ہے، پاکستان وہ مرکز ہے جہاں سے اسلام کو باقی دنیا میں پھیلنا ، وسیع ہونا اور غالب و نافذ ہونا ہے۔ آخر ہم اپنے اسلامی نظریات کو خلا میں تو نافذ نہیں کر سکتے ۔ نہ انہیں ابتداء ہی سے تمام دنیا میں نافذ کیا جا سکتاہے۔ 

پہلے اس کے لئے ایک خطۂ زمین کا انتخاب ضروری و لازمی تھا کہ یہاں ہم اس کا تجربہ کرسکیں اور ساتھ ہی ایک ایسی قوم تیار کر سکیں کہ جو اس نظریے کو اپنالے اور پھر اسے زمین پر پھیلانے کا کام اپنے ذمہ لے، تاکہ یہ اسلامی نظریہ ان لوگوں کی قومی میراث بن جائے۔ ان کی قومیت اور اسلامی نظریۂ حیات لازم و ملزوم بن جائیں ۔ بلکہ اسلامی نظریۂ حیات ہی ان کی قومیت بن جائے۔ پاکستانی قومیت اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اس لئے پاکستان سے محبت ، اسلام ہی کی محبت کا ایک ضروری زینہ ہے۔ 

پاکستان سے محبت، پاکستان پر فخر، پاکستان کو بہتر بنانے کا جنون ۔ یہی وہ چیز ہے جو اس وقت ہم کو سیاسی، معاشی، دفاعی ہر اعتبار سے بچاسکتی ہے۔ ہمیں ہر جانب سے طاقتور ممالک گھیرے ہوئے ہیں۔ ایسے ممالک جن کے نظریات حیات ہم سے مختلف ہیں۔ جو رقبہ اور آبادی میں ہم سے کئی گنابڑے ہیں جو وسائل میں ہم سے بہت آگے ہیں، اس وقت ان سے مقابلے میں ہمیں صرف اپنے ملک سے والہانہ محبت ہی بچاسکتی ہے۔ اسلام کا ہم سے تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے وطن پاکستان سے محبت کریں ،اپنے وطن کے سپاہی بنیں اور جو بھی ہمارا کام ہو، اسے سچے محب وطن کی طرح محنت اور بے غرضی و بے لوثی سے انجام دیں۔ پاکستان کے مسلم نوجوانوں کواپنے وطن سے سرشار ہونا چاہیے۔ 

ان کی نس نس میں نظریۂ اسلام اور وطن عزیز پاکستان کی محبت رچی بسی ہونی چاہیے ۔ کیوں کہ پاکستان سے ان کی عاقبت ہی نہیں ،بلکہ یہ دنیا بھی وابستہ ہے ۔ اس سے ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت وابستہ ہے۔ ذاتی مفادات آج ہیں کل نہیں ۔ مگر وطن عزیز پاکستان ایک زندہ و پائندہ حقیقت ہے۔ فرد، خاندان، قبیلہ سب کے مفادات اسلام اور پاکستان کے مفادات سے وابستہ ہیں۔ اسلام اور وطن عزیز پاکستان سے الگ ان کا کوئی مفاد نہیں اور وطن کے بالمقابل ان کے مفادات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جب تک ہم میں سے ہر ایک اسلام اور وطن عزیز پاکستان کی خاطر ذات، خاندان اور قبیلہ کے مفادات کو قربان کرنے کا سبق نہیں سیکھے گانا وطن پروان چڑھ سکتا ہے اور نہ ہی اس وطن میں اسلامی نظام نافذ اور غالب ہوسکتا ہے۔ ہر چیز قربانی مانگتی ہے۔ پاکستان سے محبت اور اس کی خاطر ایثار کر کے ہم پاکستان کو اس قابلِ بنا سکتے ہیں وہ اسلام کی روشنی میں عصرجدید کی راہنمائی کے فرائض ادا کرسکے ۔ تاکہ اس بظاہر روشن اور بباطن تاریک دنیا کے لئے ہم نے اسلام کی جو شمع روشن کی ہے وہ حقیقی روشنی کامینار بن جائے۔ 

اصل کام اپنے آپ کو بدلنا ہے۔ ملک کی حالت میں اسی دن انقلاب آئے گا۔ جب ہم میں سے ہر ایک پہلے اپنے اندر انقلاب لائے گا ۔ قرآن نے یہی بات کہی ہے کہ ’’اللہ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جب تک کہ وہ خود کو نہیں بدلتی‘‘۔ اس خصلت سے عاری رہ کر ہم نہ تو مسلمان کہلاسکتے ہیں اور نہ اپنی نظریاتی اسلامی مملکت کے محبِ وطن شہری۔ اصل مطلب تو ایسا قومی کردار اپنانے سے ہے کہ انفرادی یا اجتماعی زندگی کے نازک مرحلوں پر وہ تمام صلاحیتیں خود بخود بروئے کار آجائیں جس سے ایک مومن یا اسلامی مملکت پاکستان کے شہری اور دوسرے ممالک کے باشندوں کے درمیان امتیاز ہو سکے مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد اورنظم کی تاکید کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم مسلمانوں کو ان کی باہمی رحمدلی، دوستی محبت و عنایت میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے‘‘۔ 

قومی اتحاد و یگانگت کی اس سے بہتر تمثیل کہاں مل سکتی ہے۔ انفرادی او ر قومی احساسِ سود و زیاں کے سلسلے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ انفرادی اور قومی مفادات کے جانچنے کے لئے اللہ کی دی ہوئی عقلِ سلیم سے کام لینا ہمارے لئے ضروری ٹھہرادیا گیاہے۔ قوم میں تفرقہ ڈالنے میں انسان کی زبان اور ہاتھ ہی ایسے اعضاء ہیں کہ اگر ان پر قابو نہ رکھا جائے تو تخریب اور انتشار لازمی نتیجہ ہے۔ 

اسی لئے آپ ﷺ نے کامل مسلمان کی نشانی یہ بھی بیان فرمائی کہ’’اس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذانہ پائیں‘‘۔ احساس ذمہ داری اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نہ صرف قومی اور ملی امور کے سلسلے میں اپنے قول و فعل میں مجموعی ملّی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھیں ،بلکہ انفرادی امور میں بھی غیر ذمہ دارانہ اظہار خیال اور فعل سے اپنے آپ کو روکے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’کوئی شخص مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔ قومی اتحاد اور یگانگت کی اس سےبڑی اور کیا ترکیب ہو سکتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلامی مملکت پاکستان کی سالمیت اور استحکام و بقا کے لئے ان بنیادی احکامات و ہدایات پر ثابت قدم رکھے جن کی رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے اور اس طرح ہمیں اسلامی جموریہ پاکستان کا محب وطن و مفید شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے۔