• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نحوست، توہم پرستی اور بدشگونی اسلامی تعلیمات کے منافی عمل

مولانا محمد الیاس عطار قادری

حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی ،وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر و فیض القدیر)

کسی شخص، جگہ، چیز یا وَقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ،یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔ مولانا امام احمد رضاخانؒ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص کے متعلق مشہور ہے، اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ دِقت اور پریشانی اٹھانی پڑےگی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وثوق (اِعتماد اور بھروسا) ہو، لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہو گی ،چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب ہربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اِس اَمر کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آ جاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے‘ اپنے کام کےلیے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِعمل کیسا ہے؟ کوئی قباحت شرعیہ تو نہیں؟ 

اعلیٰ حضرت ؒنے جواب دیا: شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے: ’’جب کوئی شگونِ بدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے، مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہئے کہ اے اللہ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں) پڑھ لے اور اپنے رب عزوجل پر بھروسا کر کے اپنے کام کو چلا جائے، ہر گز نہ رُکے، نہ واپس آئے‘‘۔

کسی شخص کو منحوس قرار دینے میں اس کی سخت دِل آزاری ہے،اس سے تہمت دھرنے کا گناہ بھی ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں برے شگون کا خیال آ ہی جاتا ہے، اس لئے کسی شخص کے دِل میں بَدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گناہ گار قرار نہیں دیا جائےگا، کیونکہ محض دِل میں برا خیال آجانے کی بنا ءپر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے۔

رسولِ مہربان ﷺ نے اِرشادفرمایا: ’’بدفالی لینا شرک ہے، بدفالی لینا شرک ہے‘‘، یہ تین مرتبہ فرمایا، (پھر اِرشادفرمایا) ’’ہم میں سے ہر شخص کو ایسا خیال آ جاتا ہے، مگراللہ عزوجل توکل کے ذریعے اسے دُورفرما دیتا ہے‘‘۔ علامہ ملا علی قاریؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’بدشگونی لینے کو شرک قرار دیا گیاہے، کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کااِعتقاد تھا کہ بدشگونی کے تقاضے پر عمل کرنے سے انہیں نفع حاصل ہوتا ہے یا ان سے ضرر اور پریشانی دُور ہوتی ہے اورجب انہوں نے اس کے تقاضے پرعمل کیا تو گویا انہوں نے اللہ عزوجل کےساتھ شرک کیا اور اسے شرکِ خفی کہا جاتا ہے (جو کہ گناہ ہے) اوراگر کسی شخص نے یہ عقیدہ رکھا کہ فائدہ دِلانے اور مصیبت میں مبتلا کرنے والی اللہ تعالیٰ کے سوااورکوئی ذات ہے جو ایک مستقل طاقت ہے تواس نے شرکِ جلی کا اِرتکاب کیا ہے (جو کہ کفر ہے)۔

بدشگونی لینا عالمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بدشگونیا ں لیتے ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے چنانچہ کبھی اندھے، لنگڑے، ایک آنکھ والے اور معذور لوگوں سے تو کبھی کسی خاص پرندے یا جانور کو دیکھ کر یا اس کی آواز کو سن کر بدشگونی کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔ کبھی کسی وقت یا دِن یا مہینے سے بدفالی لیتے ہیں۔ 

کوئی کام کرنے کا اِرادہ کیا اور کسی نے طریقہ کار میں نقص کی نشاندہی کردی یا اس کام سے رُک جانے کا کہا تو اس سے بدشگونی لیتے ہیں کہ اب تم نے ٹانگ اَڑا دی ہے تو یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ کبھی ایمبولینس کی آواز سے تو کبھی فائربریگیڈ کی آواز سے بدشگونی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کبھی اخبارات میں شائع ہونے والے ستاروں کے کھیل سے اپنی زندگی کو غمگین و رَنجیدہ کر لیتے ہیں۔ کبھی مہمان کی رُخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ کبھی جوتا اُتارتے وقت جوتے پر جوتا آنے سے بدشگونی لیتے ہیں۔ کسی کا کٹا ہوا ناخن پائوں کے نیچے آ جائے تو آپس میں دُشمنی ہوجانے کی بدشگونی لیتے ہیں۔ سیدھی آنکھ پھڑکے تو یقین کرلیتے ہیں کہ کوئی مصیبت آئےگی۔ 

عید جمعہ کے دن ہوجائے تو اسے حکومت وَقت پر بھاری سمجھتے ہیں۔ کبھی بلی کے رونے کو منحوس سمجھتے ہیں تو کبھی رات کے وقت کتے کے رونے کو۔ مرغا دن کے وقت اَذان دے تو بدفالی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ اسے ذَبح کر ڈالتے ہیں۔ پہلا گاہگ سودا لئے بغیر چلا جائے تو دکاندار اس سے بد شگونی لیتا ہے۔ نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی شخص فوت ہوجائے یا کسی عورت کی صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔ 

حاملہ عورت کو میت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر برا اثر پڑےگا۔ جوانی میں بیوہ ہوجانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں، نیز یہ سمجھتے ہیں کہ خالی قینچی چلانے سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے۔ کسی کا کنگھا اِستعمال کرنے سے دونوں میں جھگڑا ہوتا ہے۔ خالی برتن یا چمچ آپس میں ٹکرانے سے گھر میں لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے۔ جب بادلوں میں بجلی کڑک رہی ہو اورسب سے بڑا بچہ (پلوٹھا، پہلوٹا) باہر نکلے تو بجلی اس پر گر جائیگی۔ بچے کے دانت اُلٹے نکلیں تو ننھیال (یعنی ماموں وغیرہ) پر بھاری ہوتے ہیں۔ دودھ پیتے بچے کے بالوں میں کنگھی کی جائے تو اس کے دانت ٹیڑھے نکلتے ہیں۔ 

چھوٹا بچہ کسی کی ٹانگ کے نیچے سے گزر جائے تو اس کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔ بچہ سویا ہو ا ہو اُس کے اوپر سے کوئی پھلانگ کر گزر جائے تو بچے کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔ مغرب کے بعد دروازے میں نہیں بیٹھنا چاہئے ،کیونکہ بلائیں گزر رہی ہوتی ہیں۔ زلزلے کے وقت بھاگتے ہوئے جو زمین پر گر گیا وہ گونگا ہوجائےگا۔ رات کو آئینہ دیکھنے سے چہرے پر جھریاں پڑتی ہیں۔ انگلیاں چٹخانے سے نحوست آتی ہے۔ 

سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پائوں کٹا یا چراہوا ہو گا۔ نومولود (یعنی بہت چھوٹے بچے) کے کپڑے دھو کر نچوڑے نہیں جاتے کہ اس سے بچے کے جسم میں درد ہو گا۔ کبھی نمبروں سے بدفالی لیتے ہیں (بالخصوص یورپی ممالک کے رہنے والے)، اسی لئے ان کی بڑی بڑی عمارتوں میں 13نمبر والی منزل نہیں ہوتی، (بارہویں منزل کے بعد والی منزل کو چودہویں منزل قرار دے لیتے ہیں)، اسی طرح ان کے ہسپتالوں میں 13نمبر والابستر یا کمرہ بھی نہیں پایا جاتا کیونکہ وہ اس نمبر کو منحوس سمجھتے ہیں۔ 

رات کے وقت کنگھی چوٹی کرنے یاناخن کاٹنے سے نحوست آتی ہے۔ گھرکی چھت یا دیوار پر اُلو بیٹھنے سے نحوست آتی ہے (جبکہ مغربی ممالک میں اُلو کو بابرکت سمجھا جاتا ہے)۔ مغرب کی اذان کے وقت تمام لائٹیں روشن کردینی چاہئیں، ورنہ بلائیں اُترتی ہیں۔ مذکورہ بالا بدشگونیوں کے علاوہ بھی مختلف معاشروں، قوموں اور برادریوں میں مختلف بدشگونیاں پائی جاتی ہیں۔

بدشگونی انسان کےلیے دینی و دُنیوی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ خطرناک ہے، یہ انسان کو وسوسوں کی دَلدل میں اُتار دیتی ہے، چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ اپنی پرچھائی (یعنی سائے) سے بھی خوف کھاتا ہے۔ وہ اس وَہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دُنیا کی ساری بدبختی و بدنصیبی اسی کے گرد جمع ہوچکی ہے اور دوسرے لوگ پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ 

ایسا شخص اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے دلوں میں کدورت (دُشمنی) پیدا ہوتی ہے۔ بدشگونی کی باطنی بیماری میں مبتلا انسان ذہنی وقلبی طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے اور کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتا۔ امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی ؒ لکھتے ہیں: ’’جان لو! بدشگونی سے زیادہ فکر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی شے نہیں ہے‘‘۔

بدشگونی کا شکار ہونےوالوں کا اللہ عزوجل پر اِعتماد اور توکل کمزور ہوجاتا ہے۔ اللہ عزوجل کے بارے میں بدگمانی پیداہوتی ہے، تقدیر پر ایمان کمزور ہونے لگتا ہے، شیطانی وَسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ بدفالی سے آدمی کے اندر توہم پرستی، بزدلی، ڈر اور خوف، پست ہمتی اورتنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاً کام کرنے کا طریقہ درست نہ ہونا، غلط وقت اور غلط جگہ پر کام کرنا اور ناتجربہ کاری ،لیکن بدشگونی کا عادی شخص اپنی ناکامی کا سبب نحوست کو قرار دینے کی وجہ سے اپنی اِصلاح سے محروم رہ جاتا ہے۔ 

بدشگونی کی وجہ سے اگر رشتے ناطے توڑے جائیں تو آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں۔ جو لوگ اپنے اوپر بدفالی کا دروازہ کھول لیتے ہیں، انہیں ہرچیز منحوس نظر آنے لگتی ہے ، کسی کام کےلیے گھر سے نکلے اور کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تویہ ذہن بنالیتے ہیں کہ اب ہمارا کام نہیں ہوگا اور واپس گھر آگئے، ایک شخص صبح سویرے اپنی دُکان کھولنے جاتاہے، راستے میں کوئی حادثہ پیش آیا تو سمجھ لیتاہے کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے، لہٰذا آج مجھے نقصان ہو گا، یوں ان کا نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ 

کسی کے گھر پر اُلو کی آواز سن لی تو اِعلان کردیا کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے یا خاندان میں جھگڑا ہونے والا ہے، جس کے نتیجے میں اس گھر والوں کےلیے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے۔ نیا ملازم اگر کاروباری ڈِیل نہ کرپائے اور آرڈر ہاتھ سے نکل جائے تو فیکٹری مالک اسے منحوس قرار دےکر نوکری سے نکال دیتا ہے۔ نئی دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز گرکر ٹوٹ پھوٹ جائے تو اسے منحوس سمجھاجاتاہے اور بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ قرآن و سنّت اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ بدشگونی اور طرح طرح کے ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کےلیے حتیٰ المقدور کوشش کرتے رہیں۔

اقراء سے مزید