• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زکوٰۃ کی رقم سے مستحقین کو قسطوں پر سامان خرید کر دینے کا شرعی حکم

تفہیم المسائل

سوال: ایک ادارہ یا کوئی شخص لوگوں سے زکوٰۃ کی رقم مستحقین کے نام پر وصول کرتا ہے اور اس رقم سے رکشہ خرید کر کسی مستحق زکوٰۃ کو پچیس ہزار روپے ایڈوانس لے کر ماہانہ قسطوں پہ دیتا ہے، اصل کاغذات بھی رکشہ خرید کر دینے والا اپنے پاس رکھتاہے اور قسط ادا نہ کرنے پر رکشہ چھین لیتاہے ،کیا یہ طریقہ جائز ہے، زکوٰہ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ،(محمد یوسف، کراچی)

جواب: صدقاتِ واجبہ (زکوٰۃ ، فطرہ ، فدیہ ، کفارہ اور نذرکی رقوم ) جمع کرنے والے ادارے یا افراد زکوٰۃ دینے والوں کے وکیل ہوتے ہیں اور اُن کی شرعی ذمے داری ہے کہ وہ زکوٰۃ کو اُس کے شرعی مصارف پر صرف کریں، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ اَئمۂ اَحناف کے نزدیک زکوٰۃ کی درست ادائی کے لیے تملیک یعنی کسی مستحقِ زکوٰۃ شخص کو مالک بنانا شرط ہے ، تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: ترجمہ:’’ اور زکوٰۃادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ نادار کو مالک بنا دیا جائے نہ کہ محض استعمال کرنے کی اجازت دی ہو،  (جلد:3، ص:161 )‘‘۔

آپ نے جو صورت بیان کی ہے، اُس کے مطابق اس طریقے سے زکوٰۃ ادا کرنے والے کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اور اس کا وبال زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ وصول کرنے والے افراد یا ادارے کے ذمے داران پر ہوگا اور اُن پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے مؤکل کی زکوٰۃ شریعت کے مطابق ادا کریں، زکوٰۃ کی رقم میں خلافِ شرع تصرُّف کی ذمے داری ان پر عائد ہوگی۔

زکوٰۃ وصدقات واجبہ دینے والوں کا وکیل فرد یا ادارہ اگر تحقیق کے بعد کسی کو مستحقِ زکوٰۃ سمجھتا ہے اور اس کو روزگار کے لیے رکشہ خرید کر دینا چاہتا ہے، تو مالکانہ بنیاد پر دینا ہوگا اور اس کی رجسٹریشن اسی مستحقِ زکوٰۃ کے نام پر کرانا ہوگی اور دیگر ایسی شرائط عائد نہیں ہوں گی، جو حق ملکیت کی ضد ہوں، مثلاً: یہ کہ آپ بیچ نہیں سکتے یا ملکیت کے کاغذات (رجسٹریشن) ہمارے نام پر ہوگی ،وغیرہ۔ 

اسی طرح کراچی کی بعض برادریوں کی انجمنیں زکوٰۃ وصدقات واجبہ کی رقوم سے سستے فلیٹس بناتی ہیں اور برادری کے مالی اعتبار سے کمزور افراد کو معمولی کرائے، مثلاً :پانچ سو روپے ماہانہ کرائے پر دیتی ہیں، ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ بیچ دیں گے، اس سے بھی زکوٰۃ ادانہیں ہوگی تاوقتیکہ وہ مالکانہ بنیاد پر فلیٹ کا حق ملکیت مع قبضہ اُن کے نام پر منتقل نہ کریں ،زکوٰۃ مالی عبادت ہے اور عبادت کو اس کی شرعی شرائط کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ 

البتہ ایک صورت جوازکی ہے، مثلاً :رکشے کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے اور زکوٰۃ وصدقات واجبہ کا فرد یا ادارہ صدقاتِ واجبہ کی مَد میں ساٹھ ہزار روپے دینا چاہتاہے، تو مستحق زکوٰۃ سے کہہ سکتا ہے کہ قرض کی صورت میں یا جیسے بھی ممکن ہو چالیس ہزارروپے کا بندوبست کرو ،باقی ہم دیں گے اور رکشا خرید لو، خواہ وہ اپنے پاس سے پہلے خرید کر وہ رکشا اس کے نام کردیں، قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں رکشے کو قبضے میں لے لینا اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ یہ مالکانہ بنیاد پر نہیں دیا گیا۔

غرض یہ ادارے یا زکوٰۃ وصول کرنے والا وکیل زکوٰۃ کی رقم کا امین ہے ، اس رقم میں من مانا تصرُّف کرنے کا شریعت نے انھیں حق نہیں دیا۔ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کررہا ہے، شرعاً اُسے بھی مستحقِ زکوٰۃ کو شرائط کا پابند کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے ، یہ ادارے تو محض زکوٰۃ دینے والوں کے وکیل ہیں۔ جن تنظیموں یا اداروں کے بارے میں زکوٰۃ دینے والوں کو یقین یا ظنّ غالب ہو کہ وہ زکوٰۃ وصدقات ِ واجبہ کو اس کے مصارف شرعیہ پر صرف نہیں کرتے تو انھیں زکوٰۃ ہرگز نہ دی جائے اور دینے سے ادابھی نہیں ہوگی اور قیامت کے دن زکوٰۃ دینے والے اور درمیان میں واسطہ بننے والے دونوں سے اس کی باز پُرس ہوگی۔

یہاں یہ مسئلہ بھی واضح رہے کہ اگرکسی نے صدقات ِ واجبہ یا نافلہ یاکسی بھی طرح کی امانات کی رقم کاروبار میں لگائی اور اس میں نقصان ہوگیا یا اصل مال بھی ڈوب گیا ، تو اُس کا تاوان اُن عہدیداروں یا پوری انجمن پر ہے ،کیونکہ وہ امین ہیں اور انھوں نے امانت میں خود تصرُّف کیا ہے، شریعت نے اُن کو اس کا نہ مُکلّف بنایااور نہ حق دیا، لہٰذا انھیں اس کا تاوان اپنے ذاتی وسائل سے پورا کرنا ہوگا، کیونکہ شرعی مسئلہ ہے : ’’ اگر امانت کی رقم امین کے تصرُّف یا تعدّی سے ضائع ہوجائے، تو ایسے امین پراس کا ضمان عائد ہوگا‘‘۔

(۱)ترجمہ:’’اور تعدّی کی صورت میں امین ضامن ہوگا اور یہ امانتوں کا حکم ہے، (تنویر الابصار مع الدرالمختار، جلد4،ص:320)‘‘۔(۲)ترجمہ:’’ اور امین (فرد ہویا ادارہ )کی تعدّی کی صورت میں ضمان لازم ہوگا، (تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی ،جلد 6،ص:67)‘‘، اگر ادارے کے کسی مسئول نے تنہا یہ فیصلہ کیا ہے، تو وہ تنہا ضامن ہے اور اگر منتظمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا ہے، تو سب پر ضمان ہوگا ۔(واللہ اعلم بالصواب)