اسلام آباد (انصار عباسی) آئی ایس آئی کے زیر حراست سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور سابق چیف جسٹس پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام کی تحقیقات میں دونوں کے درمیان رابطے کی تصدیق ہوئی ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ رابطوں کی نوعیت کی تھی، آیا یہ محض سماجی رابطہ تھا یا پھر اس کے کچھ سیاسی یا مجرمانہ پہلو بھی تھے۔
کچھ سیاست دانوں اور وزراء کے بیانات کے برعکس، ان ذرائع نے اس بات کی تصدیق بھی نہیں کی کہ جنرل فیض یا ثاقب نثار 9؍ مئی کے حملوں میں ملوث تھے۔ متعلقہ حلقوں کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ثاقب نثار بھی حکام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
ان حکام کا اصرار ہے کہ انہیں سابق چیف جسٹس کیخلاف بھی کچھ مواد ملا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری قیاس آرائیوں (کہ ثاقب نثار کو بھی بیرون ملک سے واپسی پر حراست میں لیا جائے گا) کے برعکس ان ذرائع نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ حکام سابق چیف جسٹس کو گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ ثاقب نثار کیخلاف ملنے والے ’’مواد‘‘ کی نوعیت مختلف ہے اور اس کا اُن باتوں سے کوئی تعلق نہیں جو سابق چیف جسٹس کے بارے میں عموماً سوشل میڈیا اور میڈیا پر اور حکمران اتحاد کے سیاست دانوں اور وزراء کے زیر بحث ہیں۔
وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے ہفتے کو کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین ملک کی یکجہتی کیخلاف منصوبے کے منصوبہ ساز تھے اور حال ہی میں گرفتار ہونے والے افراد بشمول لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ان کے ساتھی تھے۔
اسلام آباد میں ہفتے کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تارڑ کا کہنا تھا کہ چاہے یہ ثاقب ہوں یا نثار، جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والی باتوں کی وجہ سے تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوگا۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار لندن فرار ہوگئے ہیں اور انہیں جنرل فیض کی گرفتاری سے جڑی وسیع تر انکوائری کے سلسلے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، سابق چیف جسٹس نے اس طرح کی قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا۔ جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے ثاقب نثار نے سوشل میڈیا پھیلائی جانے والی باتوں کو مسترد کیا کہ ملک میں ان کی غیر موجودگی کا تعلق جنرل فیض کی گرفتاری سے ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ وہ طے شدہ چھٹیوں کی وجہ سے لندن میں ہیں۔ تارڑ کے علاوہ، وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ وہ یہ سیاسی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جنرل فیض نے اُن فوجی تنصیبات اور مقامات کی نشاندہی کی تھی جن پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے 9؍ مئی کو حملہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل میں جنرل فیض بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر اپنی رائے دیتے تھے اور فیصلہ سازی کا حصہ تھے۔