اسلام آباد(رپورٹ، رانامسعود حسین) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقت نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی مبینہ آڈیو لیکس کیس میں وفاق کی اپیل منظور کرتے ہوئے فون ٹیپنگ سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم نامہ معطل کر کے تاحکم ثانی مزید کارروائی سے روکدیا، عدالت نے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کو نوٹس جاری کر دیئے، عدالت نے 29مئی 2024 کے ٹیلی کام کمپنیز کو جاسوسی مقاصد کیلئے ٹیلی فون ریکارڈنگ سے روکنے ، صارفین کے ڈیٹا تک رسائی اور اسکے استعمال سے روکنے سے متعلق حکمنامہ کے حوالے سے آبزرویشن دی ہے کہ چونکہ عدالت نے اس حکمنامہ کو اگلی عدالتی کارروائی میں توسیع نہیں دی تھی ، اس لیے ا سے معطل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ 29 مئی اور 25جون کا حکم اختیار سے تجاوز، اسلام آباد ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس کا اختیار نہیں ،اسلام آباد ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس کا اختیار نہیں،جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے کوئی سچائی تک پہنچنانہیں چاہتا، انکوائری کمیشن بنا سپریم کورٹ نے اسٹے آرڈر دیدیا، کیس دوبارہ مقرر ہی نہیں ہوا، پارلیمان کو بھی روک دیا، جسٹس امین الدین نے کہا ہوسکتا ہے جن کی بات کی جارہی ہے، آڈیو انہوں نے ہی لیک کی ہو،آج کل موبائل میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ہائیکورٹ کے حکمنامے کے سبب کسی دہشت گرد کو بھی اب نہیں پکڑ پا رہے، آئی ایس آئی، آئی بی کو فون ٹیپنگ اور سی ڈی آر سے بھی روکا گیا،انٹیلی جنس ایجنسیز کاؤنٹر انٹیلی جنس نہیں کر پا رہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے پیر کے روز سابق خاتون اول بشری بی بی کی توشہ خانے سے تحائف لینے سے متعلق جبکہ ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی پی ٹی آ ئی کی انتخابی ٹکٹوں کی خرید و فروخت سے متعلق گفتگو پر مبنی آڈیو لیک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے29مئی اور25جون کے احکامات کیخلاف وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی اپیلوں کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل ،عامر رحمان نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران اصل معاملہ ایک جانب رکھ کر ازخود نوٹس کارروائی شروع کردی اور کسی فریق کا موقف سنے بغیر ہی احکامات جاری کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان اداروں کیخلاف بھی احکامات جاری کیے ہیں جو نہ تو اس مقدمہ کا حصہ تھے اور نہ ہی انہیں فریق بنا کر ان کا مو قف سنا گیا تھا،انہوںنے بتایا کہ اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد ختم ہوچکی تھی اور معاملہ غیر موثر ہوچکا تھا ،لیکن اس کے باوجود ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ازخود نوٹس کارروائی شروع کردی۔ انہوںنے کہاکہ ٹیلی گراف ایکٹ،فیئر ٹرائل ایکٹ اور پریونشن آف الیکٹرانک ایکٹ سمیت چار قوانین کے تحت کسی کے ٹیلی فون کی غیر قانونی طور پر ریکارڈنگ،ٹیپنگ جرم کے زمرہ میں آتی ہے، لیکن ہائی کورٹ اس معاملہ کے قانونی پہلوؤں چھوڑ کر کسی اور سمت ہی چل پڑی ہے۔ انہوںنے کہا کہ عدالتی حکمنامہ کے ذریعے متعلقہ حکام کو فون کی ٹیپنگ سے روک دیا گیاہے ،اس حکم کے سبب خفیہ ادارے کاؤنٹر انٹیلی جنس نہیں کر پا رہے ہیں اور کسی بھی دہشت گرد کو اب نہیں پکڑ پا رہے ہیں، آئی ایس آئی اور آئی بی کو بھی فون ٹیپنگ اورکال ڈیٹا ریکارڈنگ (سی ڈی آر) سے بھی روک دیا گیا ہے ،جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بعد میں تو اجازت دیدی گئی تھی؟ جس پر انہوں نے کہا کہ صرف سی ڈی آر کی حد تک اجازت دی گئی تھی۔ انہوںنے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں گھڑیوں کی فروخت کی جعلی رسیدیں جمع کرانے پر کمپنی کے مالک نے تھانہ کوہسار میں ایک ایف آئی آر درج کرائی تھی ،جس میں ملزمہ بشری بی بی کو شامل تفتیش کیا گیا تو اس نے آڈیو کو ہی جعلی قرار دیدیا، جس پر اسے اپنی آوازریکارڈ کرانے کے لئے نوٹس جاری کیا گیا تاکہ فرانزک آڈٹ کرکے دیکھا جائے کہ آڈیو جعلی ہے یا اصلی؟ تو اس نے اس نوٹس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیاتھا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریما رکس دیے کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے آڈیو لیکس کمیشن کو روک دیا گیا لیکن حکم امتناع کے بعد وہ درخواست دوبارہ سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ نے یہ تعین کیا تھا کہ آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکاہے ،جس پر فاضل جج نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ جن سے بات کی جا رہی ہو یہ آڈیو انہوں نے خود ہی لیک کی ہو؟ کیا اس پہلو کی جانب بھی دیکھا گیاہے؟ آج کل تو ہر موبائل میں ریکارڈنگ کا سسٹم موجود ہے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ تاحال یہ تعین نہیں ہواہے ۔