• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص دوسرے شخص کو دو لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیتا ہے، نفع ونقصان میں شریک ہیں، دوسرے شخص کا کوئی پیسہ نہیں صرف محنت ہے۔ طے یہ پایا ہے کہ نفع میں سے دو حصے کام کرنے والے کو اور ایک حصہ رقم دینے والے کو ملے گا، کیا یہ درست ہے؟ (عبدالستار، بھکر)

جواب: ایسا عقد جس میں ایک فریق کی طرف سے سرمایہ ہو اور دوسرے فریق کی طرف سے محنت اور عمل ہو ، شرعی اصطلاح میں’’ مضارَبت‘‘ کہلاتا ہے۔ فریقِ ثانی صرف عامل شراکت دار( ورکنگ پارٹنر) ہے ، اُس نے کاروبار میں اپنا مال نہیں لگایا اورزید نے اُسے نفع میں شریک کیاتھا ،اصول بھی یہی ہے کہ مُضارِب نفع میں شریک ہوتا ہے، مال میں شریک نہیں ہوتا، علامہ علاء الدین حصکفی مضارَبت کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ فریقین کے درمیان نفع کا تناسب معلوم ہو ،اگر ’’ربُّ المال‘‘کے لیے منافع کی کوئی رقم مقرر کر لی جائے ، تو عقدِ مضاربت فاسد ہو جائے گا ،(اس کے جواز کی صورت یہی ہے کہ) عقد ِ مُضارَبت کے وقت کاروبار کے منافع میں سے فریقَین میں سے ہرایک کا حصہ معلوم ہو، (ردالمحتار علیٰ الدر المختار ، جلد8،ص:376، مطبوعہ : بیروت )‘‘۔ یعنی مثلاً: دونوں کونصف نصف ملے گایا ایک کو ساٹھ فیصد اور دوسرے کو چالیس فیصدملے گا یا جوبھی تناسب (Ratio) ان دونوں کے درمیان طے پائے۔

خدانخواستہ نقصان کی صورت میں حاصل شدہ کل نفع سے اس کی تلافی کی جائے گی، علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’مالِ مضاربت میں سے جو مال ہلاک ہوا ، اس کی کمی نفع سے پوری کی جائے گی ،کیونکہ نفع اصل زَر (رأس المال )کے تابع ہے ،پس اگر نقصان ا تنا ہواکہ نفع سے اسے پورا نہیں کیا جاسکتا ،تومُضارِب پر ضمان نہیں ہے(بلکہ یہ نقصان ربُّ المال پر عائد ہوگا)، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد8، ص:385)‘‘۔

بشرطیکہ نقصان میں مُضارِب کی تعدّی ،تصرُّف یا غفلت شامل نہ ہو ،مضاربت میں نقصان کا اصول یہ ہے کہ مُضارِب فقط اپنی کوتاہی سے ہونے والے نقصان کا ذمّہ دار ہوتا ہے،امام احمد رضاقادریؒ لکھتے ہیں: ’’مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے ،وہ اپنی تعدِّی و دست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں،(فتاویٰ رضویہ ،جلد 19،ص:131)‘‘۔

مُضارِب کی تعدّی یا اُس میں ذاتی تصُّر ف کے بغیر کاروبار میں ہونے والے نقصان کامضارِب پر کوئی مالی بارنہیں آئے گا، اس کا نقصان فقط یہ ہے کہ اسے اُس کی محنت کا صلہ نہیں ملے گا، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ایک شخص(رَبُّ المال) نے دوسرے شخص (مُضارِب) کو کچھ سامان دیا اور کہا: اس سے خرید وفروخت (یعنی کاروبار) کرواور جو نفع آئے، وہ ہمارے درمیان نصف نصف تقسیم ہوگا اور اسے (کاروبار میں) نقصان ہوگیا، تو عامل (یعنی مُضارِب)کے ذمّے نقصان میں سے کچھ نہیں آئے گا (بس اسے صرف محنت کا اجر نہیں ملے گا) ،(ردالمحتار، جلد:8،ص:374)‘‘۔ پس آپ نے اگر درج بالا طریقے پر معاملات طے کیے ہیں تو یہ ’’عقدِ مُضارِبت‘‘ کہلائے گا اور شرعاً جائز ہے ۔