• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُورِث کی وفات کے وقت جو زندہ ہوں، وہی وارث بنتے ہیں

تفہیم المسائل

سوال: محمد اکبر کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں ، ایک بیٹی نورالنساء کا انتقال والد (محمد اکبر) کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا ،محمد اکبر کے انتقال کے بعد اُن کے ایک بیٹے محمد یوسف نے جعل سازی کرکے سرکاری کاغذات میں نورالنساء مرحومہ کا نام زندہ ورثاء میں شامل کردیا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا محمد اکبر کے ترکے میں اُن کی فوت شدہ بیٹی نورالنساء کا کوئی حصہ بنتا ہے؟، ( سیف اللہ خان ، گاؤں بجنہ ،ضلع مانسہرہ )

جواب: اگر آپ کا بیان درست ہے کہ مُتوفّٰی محمد اکبر کی بیٹی نورالنساء کا انتقال اُن کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، تو اُسے اپنے والد کے ترکے سے کچھ نہیں ملے گا ، تقسیمِ وراثت کا ایک مسلّمہ اصول ہے : ’’قریب کا وارث دور کے وارث کو محروم کردیتا ہے‘‘،اسے ’’اُصولِ حَجب‘‘ کہتے ہیں۔

علامہ ابنِ عابدین شامی ترکہ ملنے کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مُورِث کی وفات کے وقت وارث کا حقیقۃً زندہ موجود ہونا(بھی حقِ وراثت کے لیے ایک شرط )ہے، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد10، ص: 408)‘‘۔

مُورِث کے معنی ہیں: ’’مال چھوڑ کر وفات پانے والا شخص ‘‘۔البتہ اگرتمام ورثاء اپنی آزادانہ مرضی اور اتفاق رائے سے فوت شدہ نورالنساء کی اولاد کو ترکے میں سے کچھ دینا چاہیں تویہ ایک اعلیٰ انسانی قدر ہے ، اس کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:’’اورجب(ترکے کی)تقسیم کے موقع پرقرابت دار،یتامیٰ اورمساکین آجائیں (جوشرعاً وارث نہیں بن سکتے)، تو انہیں بھی (رضاکارانہ طور پر)ترکے میں سے کچھ دے دواوران سے اچھی بات کہو،(سورۃ النساء:8)‘‘۔

قرآن کایہ حکم ایجابی (Obligatory)تو نہیں ہے ،استحبابی ہے، اس کی حیثیت مقاصدِخیرکے لیے سفارش اورمشاورت کی ہے۔ لہٰذا جتنا حصہ مُتوفّٰی محمد اکبر کی وفات کے وقت اُن کی بیٹی نورالنساء کے حیات ہونے کی صورت میں انہیں ملنا چاہئے تھا، اگر تمام ورثاء اتفاق ِرائے سے اتنا یا اس سے کچھ کم تبُّرعاً اور استحساناً رضاکارانہ طور پر تقسیم ترکہ سے پہلے اُن کے بچوں کو بطور ہبہ(Gift) دے دیں تویہ ایک مستحسن امر ہوگا،صلۂ رحمی کاباعث ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہوگا اور اس کا اجر انہیں ملے گا، قرآن مجید حکیمانہ انداز میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: ’’اور لوگ (یہ سوچ کر) ڈریں کہ اگر وہ اپنے پیچھے (خدانخواستہ) کمزور (بے سہارا) اولاد چھوڑ جاتے، تو انہیں ان کے (رُلنے کا)خوف ہوتا، تو انہیں چاہئے کہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور درست بات کہیں، (سورۃ النساء:9)‘‘۔ تو قرآن نے بتایا کہ اپنے پسماندگان پر کسی ایسے مشکل مرحلے کا تصور کرکے غیر وارث نادار اور کمزور رشتے داروں پر ترس کھاکر تقسیم وراثت کے وقت ان کی مدد کرلیا کرو۔