اسلام آباد (رپورٹ:رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی نظرثانی فیصلے میں درستگی سے متعلق پنجاب اور وفاق کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے ہوئے اپنے مختصر فیصلے میں 6 فروری اور 24جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگراف حذف کر دیئے، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کی بات سر آنکھوں پر، غلطی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے، غلطی ہو تو اصلاح بھی ہونی چاہئے، مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ شکایت کا ازالہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، دوران سماعت مفتی تقی عثمانی نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف نمبر7اور 42کو حذف کیا جائے،صاحبزادہ حامد رضا نے کہا پورا فیصلہ غلط ہے واپس لیا جائے، حافظ احسان کھوکھر نے کہا پیرا حذف کرنےابہام پیدا ہوگا نیا فیصلہ قلمبند کیا جائے، فرید پراچہ نے کہا قادیانی تشہیر گھر کی چاردیواری میں کریں یا باہر قانوناً جرم ہے،مفتی طیب قریشی نے کہا مسلمان مضطرب ہیں انہیں تسلی دیں،اسلامی اسکالر عطا الرحمٰن نے کہا اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز سے متفق ہیں۔فضل الرحمٰن‘مفتی تقی عثمانی و دیگر علمانے معاونت کی،علما اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کے دلائل پر عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جے یو آئی نے آج یوم تشکر منانے کا اعلان کردیا، فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ کے باہر مظاہرین واپس چلے گئے اورفیصلے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی گئی ۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز وفاق پاکستان اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی جانب سے دائر کی گئی مشترکہ متفرق درخواست کی سماعت کی توعدالتی نوٹس پر مفتی محمد تقی عثمانی نے( ترکیہ) سے جبکہ سید جواد علی نقوی نے( لاہور) سے ویڈیو لنک پر دلائل دیے جبکہ مولانا فضل الرحمن، مفتی شیر محمد خان ،مولانا محمد طیب قریشی، صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر اور مولانا ڈاکٹر عطا الرحمن ذاتی طور پر پیش ہوئے اور دلائل دیے ،دوران سماعت نوٹس کے باوجود بوجہ مفتی منیب الرحمن ،حافظ نعیم الرحمن، پروفیسر ساجد میر اور مولانا محمد اعجاز مصطفی پیش نہ ہو سکے تاہم انکی نمائندگی بالترتیب مفتی سید حبیب الحق شاہ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ احسان احمد ایڈوکیٹ اور مفتی عبدالرشید نے کی اور انکی جانب سے اپنے دلائل پیش کیے،عدالت کے2صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ کے مطابق سپریم کورٹ کے مورخہ24جولائی 2024کے فیصلے میں تصحیح کیلئے وفاق پاکستان اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی ہے، اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ نے بھی ایک متفقہ قراردادمنظور کی ہے ،متفرق درخواست میں بعض جید علمائے کرام کا نام لیکر عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اس مقدمہ کی تشریح کرتے وقت انکی آراء کو مد نظر رکھا جائے،فیصلہ کے مطابق عدالت نے اس درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ان علمائے کرام کو نوٹسز جاری کیے ،کیس کی سماعت کے دوران مفتی محمد تقی عثمانی نے (ترکیہ )سے جبکہ سید جواد علی نقوی نے( لاہور) سے ویڈیو لنک پر اپنے دلائل پیش کئے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن، مفتی شیر محمد خان ،مولانا محمد طیب قریشی، صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر اور مولانا ڈاکٹر عطا الرحمن ذاتی طور پر پیش ہوئے اور دلائل دیئے ہیں ،عدالتی نوٹسز کے باوجود بوجہ مفتی منیب الرحمن ،حافظ نعیم الرحمن، پروفیسر ساجد میر اور مولانا محمد اعجاز مصطفی پیش نہیں ہو سکے تاہم ان کی نمائندگی بالترتیب مفتی سید حبیب الحق شاہ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ احسان احمد ایڈوکیٹ اور مفتی عبدالرشید نے کی اور انکی جانب سے اپنے دلائل پیش کیے ہیں ، عدالتی فیصلہ کے مطابق علما ئے کرام نے معترضہ فیصلے کے متعدد پیراگرافس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے حذف کے لیے تفصیلی دلائل ہی پیش کئے اوراس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی پیش نظر رکھنے پر زور دیا ،فیصلہ کے مطابق علمائے کرام کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد عدالت نے متفرق درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے 6فروری 2024اور 24جولائی 2024کے سابق فیصلوں میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگرافس حذف کر دیے ہیں ، عدالت نے قراردیاہے کہ ان حذف شدہ پیراگرافس کو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر کسی بھی عدالت میں پیش یا استعمال نہیں کیا جا سکے گا،جبکہ ٹرائل کورٹ ان پیراگرافس سے متاثر ہوئے بغیر ملزم مبارک ثانی کے خلاف توہین مذہب کے مقدمہ کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے،عدالت نے قراردیا ہے کہ اس مختصر حکم نامہ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ قبل ازیں جمعرات کے روز کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان پیش ہوئے اور متفرق درخواست سے متعلق دلائل دیتے موقف اختیار کیا کہ ’’توہین مذہب‘‘ سے متعلق مقدمہ کے ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کے مقدمہ کے فیصلے پر نظرثانی شدہ فیصلے کے حوالے سے چند متنازعہ پیرا گرافس سے متعلق پارلیمنٹیرینز اور علمائے کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کرتے ہوئے اپیل کی تھی کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے،اس لئے اس میں علمائے کرام کا موقف سناجانا لازمی ہے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کہنا تو نہیں چاہیے ؟لیکن مجبور ہوں، میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انہوںنے کہا کہ انسان اپنے قول وفعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمنٹ کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی 50ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ ہاؤس گیا تھا ،انہوںنے کہا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی عدالت کی معاونت کرنے کو کہا تھا لیکن وہ ترکیہ گئے ہوئے ہیں، ہم نے مفتی منیب الرحمان کو بھی یہاںآنے کی زحمت دی تھی لیکن وہ نہیں آسکے ہیں ،جس پر عدالت میںموجود انکے نمائندہ نے کہا کہ مجھے مفتی منیب الرحمان نے بھیجا ہے،دوران سماعت علامہ تقی عثمانی نے ترکیہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل پیش کرتے ہوئے عدالت کے 29مئی کے فیصلے کے پیراگراف نمبر7اور 42کو حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیراگراف نمبر 42میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی غیر مشروط اجازت دی گئی ہے ، جس پر فاضل چیف جسٹس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298سی پڑھ کر سنائی ،جسکے مطابق کسی بھی قادیانی جماعت کے اشخاص کو خود کو مسلمان ظاہر کرکے تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے، انہوںنے کہاکہ قادیانی ایک اقلیت میںہیں لیکن خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراضات ہیں ،آپ ان کی نشاندہی کردیں، اگر ہمیں کوئی بات سمجھ نہ آئی تو ہم آپ سے سوال کرلینگے۔ انہوںنے مزید کہاکہ کہ ہمارا ملک ایک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے رہتے ہیں، تاہم میں بھی غلطیوں سے بالاتر نہیں ہوں،جس پر مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ جب کوئی اس نوعیت کا معاملہ ہو تو لمبے لمبے فیصلے بھی لکھنا پڑتے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 6فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی جانب دیکھنا چاہیے، انہوںنے کہا کہ میرا موقف ہے کہ ہم اس عدالت میں بیٹھ کر امریکا اور برطانیہ کے قوانین کی مثالیں تو دیتے ہیں؟ اپنی کیوں نہ اپنے مذہب کی مثالیں بھی دیں؟ کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتاہے ،جس پر مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ آپ کو اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے طے شدہ معاملات سے زیادہ اصل معاملہ کو وقت دینا چاہیئے تھا،آپ نے فیصلے کے پیرا گراف نمبر7میں لکھاہے کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا،جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں،انہوںنے ملزم مبارک ثانی کے خلاف ایف آئی آر سے دفعات ختم کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ ان دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑدیا جایے،انہوںنے کہاکہ اصلاح کھلے دل کیساتھ کرنی چاہیے، انہوںنے کہاکہ عدالت نے کہا ہے کہ قادیانی بند کمرے میں تبلیغ کر سکتے ہیں، حالانکہ قانون کے مطابق قادیانیوں کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں ہے، عدالت نے دفعہ 298C کو مدنظر نہیں رکھا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم وضاحت کردیں تو کیا یہ کافی ہوگا؟ تو مفتی تقی عثمانی نے عدالت سے وضاحت کرنے کی بجائے فیصلے کے متعلقہ حصہ کو حذف کرنے کی استدعا کی ،دوران سماعت عدالتی معاون صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے دلائل دینے سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے راستے میں حائل کی گئی رکاوٹوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تو اسلام آباد کے سارے راستے ہی بند کروائے ہوئے ہیں، میںبڑی مشکل سے حیدرآباد سے یہاں پہنچا ہوں،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ میں نے راستے بند نہیں کروائے ہیں، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کہا کہ نظرثانی فیصلے کا پیراگراف 42حذف کیا جائے،دوران سماعت عدالت نے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی لطیف کھوسہ اور صاحبزادہ حامد رضا کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آج کسی وکیل کا موقف نہیں سنیں گے،جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں بطور رکن پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی برائے لا ء اینڈ جسٹس کے ممبر کے طور پر اپنا موقف پیش کرنے کے لئے آیا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ ساتھی رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ حامد رضا کے پارلیمنٹ میں نکتہ اعتراض پر ہی تو یہ سارا معاملہ شروع ہوا تھا، چیف جسٹس نے صاحبزادہ حامد رضا کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ دیگر علمائے کرام سے بڑے عالم ہیں؟ تو انہوںنے کہا کہ میںدرس نظامی کا فاضل ہوں کسی سے بڑے ہونے یا برابری کا دعوی نہیں کرتا ہوں،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بیٹھ جائیں اور عدالتی کارروائی کو چلنے دیں، جس پر حامد رضا نے کہا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ عدالت کا پورا فیصلہ ہی غلط ہے،اورہم چاہتے ہیں کہ پورا فیصلہ ہی واپس لے لیا جائے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں بھی اراکین پارلیمنٹ کے طور پر سنا جائے،تو چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ بہت بااختیارادارہ ہے،وہ تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی ختم کرسکتی ہے ، آپ تو پارلیمنٹ سے بھی یہ فیصلہ ختم کراسکتے ہیں،دوران سماعت پروفیسر ساجد میر کے نمائندہ حافظ احسان کھوکھر نے روسٹرم پر آکر موقف اختیار کیا کہ عدالت مختلف پیراگراف حذف کرنے کے بجائے نیا فیصلہ ہی قلمبند کرلے،اگر کوئی پیراگراف رہ گیا تو مزید ابہام پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ عدالت مبارک ثانی کیس میںاپنے ابتدائی فیصلے سے اصلاح شروع کرے، جس پر مولانا فضل الرحمان بھی روسٹرم پر آ گئے اور موقف اختیارکیا کہ میںمفتی تقی عثمانی کی رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، مناسب یہی ہوگا کہ عدالت مبارک ثانی کیس میں جاری کئے گئے دونوں فیصلوں کو کالعدم قرار دے دے ،ہم نہیں چاہتے کہ عدالتی فیصلے میں ابہام کا کوئی فائدہ اٹھائے،انہوںنے مزید کہاکہ مجھے یقین ہے کہ اس تجویز سے تمام علمائے کرام متفق ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو خود کو صرف ملزم کی ضمانت کی درخواست کی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا اور ٹرائل متعلقہ عدالت میں چلتا رہنا چاہیے،انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کیلئے پارلیمنٹ نے 1974میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ،تاہم اس کمیٹی کے فیصلے کو آج تک پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا جاسکاہے ، ہم نے پارلیمنٹ کو کچھ کہا تو یہ مداخلت ہوگی،انہوںنے کہاکہ آپ سپریم کورٹ میں دوسری بار نظرثانی کی درخواست کی سما عت کررہے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ یہ نظرثانی کی دوسری درخواست نہیں ہے،مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پھر یہ نظرثالثی ہوگی۔