زرین فاطمہ
پاکستان کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے اور قدرت نے وطن عزیز کو سونا اگلتی زمینوں جیسی نعمت سے نوازا ہے لیکن منصوبہ بند ی کے فقدان کی وجہ سے اس سے مستفید نہیں ہو رہے۔ پاکستانی معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے یہ شعبہ خوراک کی ضرریات پوری کرنے کے علاوہ ملکی صنعت کو خام مال مہیا کرتا ہے ہمارا بیشتر تجارتی مال براہِ راست زرعی پیداوار کی شکل میں ہوتا ہے۔1947ء میں پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 53 فیصد تھا جو اب 21 فیصد رہ گیا ہے۔
زرخیز دریائی مٹی سے بنے میدانوں کی وجہ سے پاکستان شاندار زرعی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہم اس زمین کی صلاحیت سے 50 فیصد کم پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ کاشتکاری کے پرانے اور روائتی طریقوں کی وجہ سے پاکستان کی فی ایکڑ اوسط پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تین چار گنا کم ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ زرعی شعبے میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں تاکہ لوگ زراعت کی طرف متوجہ ہوں۔
نوجوان نسل جو خاص اہمیت کی حامل ہے وہ زرعی شعبے سے دور ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے نوجوانوں کو زرعی شعبے میں لانے کے لئے بہت سی مراعات دیں پیسہ اور زمین بھی دی اور نوجوانوں کو صرف مراعات دے کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ رورل ایگرو انڈسٹری ڈویلپمنٹ کو یقینی بنایا۔
دیہاتوں میں سرمایہ کاری کروائی انفراسٹرکچر بہتر کیا اور زرعی اداروں کو اوپر سے نیچے تک مضبوط و مستحکم کیا ۔ پاکستان کو بھی پڑھے لکھے کسانوں کی سخت ضرورت ہے جو مناسب زرعی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہوں۔
زرعی شعبہ ملک میں روزگار پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ زرعی زمین کو رہائشی ا سکیموں میں تبدیل کرنے کے بجائے اگر زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنجر اور ناقابلِ کاشت علاقوں کو بھی قابلِ کاشت بنایا جائے تو یہ عمل زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ بے روزگاری اور غربت میں بھی کمی کا سبب ہوگا اور دیہات سے روزگار کی تلاش میں شہروں کی طرف بڑھتی ہوئی نقل مکانی بھی روکی جا سکے گی، لہٰذا نوجوانوں کو معمولی ملازمتوں کی بجائے زراعت کے شعبے میں آنا چاہیئے، اس کے نتیجے میں نہ صرف ان کے گھروں میں خوشحالی آئے گی بلکہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
چین میں مختلف شعبہ جات بالخصوص زراعت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے گریجویشن کے بعد دیہی علاقوں کا رخ کیا اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے یہ نوجوان دیہات میں تعلیم، زراعت، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر شعبوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
چین کی طرح ڈیجیٹلائزیشن، نئے کاروباری ماڈلز اور جدید مارکیٹنگ اور ویلیو کنیکٹیویٹی جیسے جدید طریقے اپنائے جائیں، زراعت کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے، ہائی ویلیو فصلوں کا تعارف، ان کی کاشت کاری، لائیو سٹاک کا قیام اور زمینوں سے منڈیوں تک کسان کی رسائی میں آسانی پیدا کی جائے، بہتر پیداوار دینے کی صورت میں انعامی اسکیموں کا اجرا کیا جائے۔نوجوانوں کو دیہی علاقوں میں واپس آنے کی ترغیب دی جائے۔ زمینوں کو کاشت کرنے کے لئےان میں تقسیم کیا جائے۔ان کو ٹریکٹر اور دوسرے لوازمات فراہم کئے جائیں۔
ایسے دیہی نوجوان جو چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے خواہشمند ہیں انہیں مالیاتی خدمات تک رسائی دی جائے اور پائیدار سرمایہ کاری کے طریقوں میں رہنمائی بھی دی جائے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی کو روکنے کے لئے زراعت پر مبنی صنعتیں لگانے کےلئے ترجیحی بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی ضروری ہے۔
اس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو مقامی طور پر روزگار مل سکے گا۔ حکومت نوجوانوں کو ایسے وسائل فراہم کرنے کی ہر ممکن کوششں کریں، جن سے دیہی علاقوں کی ترقی میں اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے اور انہیں ملک و قوم کا کارآمد فرد بنایا جا سکے۔
ایسے وقت میں جب وہ بےروزگار اور زرعی شعبہ دونوں شدید بحران سامنا کر رہے ہیں۔ زراعت کی ترقی کےلئے کاشتکاری میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی دلچسپی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک ملکی سطح کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ جس میں دیہات کے نوجوانوں اور زراعت کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان نسل کو ساتھ ملایا جاسکے۔ پاکستان کو اگرترقی یافتہ ممالک کی فہر ست میں شمار کرا نا ہے تو ارباب اختیار کو اس طر ف خصوصی توجہ مرکوز کر نا چاہیے۔ ملکی خوشحالی کے لیے زرعی اراضی کا تحفظ ضروری ہے بیروزگاری کے خاتمے اور نوجوانوں کو زراعت اور اس سے وابستہ کاروبار کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔