• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ احمد سرہندی، حضرت مُجددالف ثانی ؒ

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور آپﷺ کےبعد آسمان سے زمین پر ہدایت الہٰیہ وحی خداوندی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ۔ خود مظہر تکمیل رسالت و خاتم النبیین ﷺ نے یہ فرما کر کہ ’’میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل کی مانند ہیں‘‘۔ اصلاح ِمعاشرہ اور اشاعتِ دین ذمہ داری امت کے علماء وصلحاء کی مقرر کر دی۔ 

اسی ذمے داری کے پسِ منظر میں رسول اللہ ﷺ نے اصلاحِ معاشرہ اور تجدید و احیائے دین کے ضمن میں یہ بھی فرما دیا ’’ اللہ تعالیٰ ہر ہزار سال کے بعد میری امت میں ایک ایسا شخص پیدا فرمائے گا جو اس دین (اسلام) کی تجدید کرے گا۔‘‘ (سننِ ابو داؤد)قرآن کے حکم ’’آج کے دن ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت (دین اسلام کی شکل میں ) تمام کر دی اور تمہارے لئے نظام حیات کے طور پر اسلام کو پسند کر لیا ‘‘۔ (مفہوم،سورۃ المائدہ) کے نازل ہونے میں یہی بات واضح کی گئی ہے کہ اسلام ایک ایسا دائمی دین یعنی نظامِ حیات ہے ،جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے زندگی گزارنے کا آخری دین اور ابدی نظام حیات ہے۔ 

اسلام کے آخری دین ہونے کا یہ خدائی اصول اور امتداد زمانہ اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک مقررہ وقت گزر جانے کے بعد امت میں ایسے افراد کا پیدا ہونا لازمی ہو جاتا ہے جو ہر دور کے جدید تقاضوں کے تحت دین کے احکام کی تعبیر و تشریح کرنے کی قدرتی استعداد اور خدا داد صلاحیت کے حامل ہوں، جو امتداد زمانے کے اثرات سے دین میں دَر آنے والی توہمانہ رسوم و خیالات اور بدعات کا تنقیدی جائزہ لےکر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیں گے۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمت الہٰیہ کے تحت دین کی تجدید و احیاء کا یہ کام کبھی تو فرد واحد سے لیا گیا اور کبھی پوری ایک جماعت سے بھی یہ کام لیا گیا۔ تجدید و احیائے دین کی ایسی ہی ایک تحریک کی ضرورت کا تقاضا اسلام کے پہلے ہزاریے یعنی دسویں صدی ہجری کے اختتام پر عالم اسلام اور خاص طور پر بر صغیر کے دینی، علمی، سیاسی، معاشرتی حالات بھی کر رہے تھے۔ 

برصغیر جنوبی ایشیاء یا ہندوستان میں یہ زمانہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اور اس کے بیٹے جہانگیر کے دور حکومت کا تھا۔ اکبر بادشاہ کے حضور خصوصی نشستیں منعقد ہوتی تھیں۔ ان نشستوں میں آزادانہ اظہار خیال ہوتا اور بات اسلام کا مذاق اڑانے اور اسلام کو محدود کر دینے تک پہنچ گئی ۔ شعائر اسلام کی توہین کی جانے لگی۔ نبوت و رسالت کو نظر انداز کر کے نام نہادتصور توحید کا راگ الاپا گیا۔ بادشاہ کو یہ سبق پڑھایا گیا کہ اسلام کو ایک ہزار سال مکمل ہو گئے۔

اب ایک نئے دین کی ضرورت ہے ،ہر دین میں کچھ اچھی باتیں ہوتی ، اسلام اور دیگر مذاہب کی ان سب اچھی باتوں کو جمع کر کے ایک نیا دین و ضع کیا جائے ،لہٰذادین ِاکبری کے نام سے ایک نیا اور خود ساختہ دین گھڑا گیا جس کا نام ’’دینِ الٰہی ‘‘ رکھا گیا ۔ رفتہ رفتہ شعائر اسلام پر حملے ہونے لگے ۔ چنانچہ ہندوستان میں مذکورہ حالات میں دین کے احیاء و تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کو اکبر کی تخت نشینی کے آٹھویں سال ۹۷۱ھ/۱۵۶۳ء کو اس دنیا میں بھیجا۔ 

حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی تعلیم و تربیت ایسے لوگوں میں ہوئی کہ جو اس دور کے صالح ترین تھے۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت مجد الف ثانی ؒ کو سب سے زیادہ فیض حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ سے پہنچا جو کہ اس وقت ہندوستان میں سلسلہ نقشبندیہ کے جلیل القدرصوفی بزرگ تھے ۔ حضرت مجددؒ نے حضرت باقی باللہ ؒ کی بیعت کی اور سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہوئے۔ آپ نے اپنے وقت کے جیّد علمائےکرام سے قرآن و تفسیر قرآن ، حدیث وفقہ اور دیگر علوم اسلامیہ میں کمال حاصل کیا۔

حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اکبر بادشاہ کی حکومت کے 31برس کا مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ اکبر کے دور حکومت کے جو مذہبی و معاشرتی حالات بیان کیے گئے ہیں، ان حالات میں کسی عام مسلمان کے لئے اسلامی احکام و تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا آسان نہیں تھا۔ جن علماء نے اکبر کے ملحدانہ اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی ،اُنہیں قتل یا شہر بدر کر دیا گیا، بہت سوں کو قید کر دیا گیا۔ دوسری طرف حضرت مجدد ؒ اپنے مشن تجدید و احیائے دین میں خاموشی کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ 

حضرت مجددؒ کے سامنے بیک وقت کئی محاذ فوری توجہ چاہتے تھے۔ سب سے پہلے نام نہاد اور جاہل صوفیاء کی عام کی ہوئی گمراہیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اسلام کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنا تھا۔ آپ نے اپنے تاریخی مکتوبات سے خودساختہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کی گمراہ فکر کو دین کی چولیں ہلا دینے کے مترادف قرار دیا۔ اسی طرح یہ متصوفانہ فکر کہ ’’شریعت طریقت کی تابع ہے‘‘۔ پر بھی تنقید کی۔ 

آپ نے اس نازک مسئلے کو بھی بہت احسن انداز سے سمجھایا اور بتایا کہ طریقت اور شریعت جدا جدا نہیں ،بلکہ طریقت و تصوف شریعت اور قرآن و سنت کے تابع ہیں۔ آپ کی اس مصلحانہ کوشش سے صوفیاء کے فکر و عمل میں نمایاں تبدیلی آئی۔ حضرت مجدد ؒ نے ایک اہم تجدیدی کام یہ کیا کہ وحدۃ الوجود اور نبوت ِ محمدی کی ابدیت کے مسائل کو دلائل و براہین سے سمجھایا۔

آپ نے ان مسائل کا علمی تعاقب کیا اور اپنی تحریروں سے ان مسائل کو حل کیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحریک احیائے و تجدید دین کا دوسرا اہم مرحلہ اور نقطۂ عروج جہانگیر کا دور ہے۔ یہ 1027ھ کا وہ زمانہ ہے کہ جب آپ کے تربیت یافتہ خلفاء ،مریدین و معتقدین پورے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے علاقوں افغانستان، ترکی، ایران، وسط ایشا سب جگہ پھیل چکے تھے اور ان مقامات پر تجدید و اصلاح کی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اسلامی ریاست میں احیاء و تجدید دین کا طریقہ داعی کے نزدیک اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں ہوتا۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی تحریک کا یہ پہلو بہت اہم ہے۔ 

آپ نے انقلاب کے بجائے اصلاح کا طریقہ اختیار فرمایا۔آپ کی مزاحمت پر جہانگیر نے آپ کو دربار میں طلب کیا۔ ابھی تک جہانگیر اپنے با پ اکبر ہی کے الحادو شرک کے راستے پر گامزن تھا۔ فکر و خیال اور دربار کے ماحول پر وہی علمائے سُوء اور ہندو چھائے ہوئے تھے۔ سارے طور طریقے اکبری دور ہی کے رائج تھے۔ حضرت مجدد ؒ جہانگیر کے دربار میں پہنچے، لیکن آپ نے جہانگیر کو سجدۂ تعظیمی کرنے سے صاف انکار کر دیا جس پر بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا او ر اس نے آپ کو گرفتار کرکے گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا ۔ یہاں آپ نےبہت سے غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ آخر کار ایک سال کے عوامی دباؤ پر جہانگیر نے آپ کو رہا کر دیا۔ 

بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جہانگیر کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی اور آپ ﷺ نے اس سے خفگی و غصے کے عالم میں فرمایا ’’تو نے میری امت کے بہترین شخص شیخ احمد کو قید میں ڈالا ہوا ہے، انہیں فوراً رہا کرو ‘‘۔ اس کے بعد آپ نے جہانگیر کو اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین جاری رکھی۔ اس نے بدعات منکرات سے توبہ کی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار جہانگیر بیمار ہوا اور معا لجین نے جواب دے دیا تو اس نے دربار میں مجدد صاحب کو دعا کے لئے بلایا۔ آپ نے بادشاہ سے شعائر اسلام کے تحفظ و اتباع کا وعدہ لیا اور پھر دوگانہ ادا کر کے دعائے صحت کی، جس کے بعد جہانگیر صحت یاب ہو گیا۔ 

اس کے بعد حضرت مجدد ؒ کی کوششوں سے جہانگیر نے سجدہ تعظیمی سمیت دیگر تمام رسومات و بدعات کا سلسلہ دربار اور ریاست سے ختم کرنے کا حکم جاری کردیا، جہانگیر حضرت مجدد لف ثانیؒ سےاتنا متاثر ہوا کہ وہ آپ کا مرید ہو کر حلقۂ ارادت میں داخل ہوا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے تجدیدی کارناموں اور احیائے دین کی کوششوں میں آپ کے تاریخی مکتوبات کا بہت بڑا حصہ ہے۔ 

آپ نے اپنے دور کی ’’تجدید دین ،اصلاح و دعوت‘‘ میں ان دعوتی خطوط کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اگرآپ اس وقت ملک و ملت کو ان کے حال پر چھوڑ کر گوشۂ نشین ہو جاتے۔ ذکر و فکر میں مشغول ہو کر لوگوں کو صرف روحانی فوائد پہنچاتے اور خانقاہ سے نکل کر رسم شبیری ادا نہیں کرتے تو آج برصغیر میںکو ئی اسلام کا نام لینے والا نہیں ہوتا۔ اقبال نے سچ کہا ہے ؎

وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار