تفہیم المسائل
سوال: ایک امام زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھتاہے اور سجدہ بھی زمین پر کرتا ہے، کیا ایسے شخص کی اقتداء میں ایسے مقتدی نماز ادا کرسکتے ہیں ،جو کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں اور باقاعدہ رکوع وسجود بھی کرتے ہیں،(عبداللہ ، کراچی)
جواب: ایسا شخص جو رکوع وسجود سے عاجز ہو، رکوع اورسجود اشارے سے کرتاہو،اُس کے پیچھے اس شخص کی نماز نہیں ہوگی جو رکوع اور سجود کرسکتا ہے۔ اگر بیٹھ کر رکوع وسجود کرسکتا ہے ،تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز ہوجائے گی۔ امام اعظم ابو حنیفہ ، امام شافعی اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ اجمعین کا موقف یہ ہے کہ جو شخص قیام پر قادر ہو، اس کی نماز بیٹھ کر پڑھنے والے امام کے پیچھے صرف اس صورت میں جائز ہے ،جب وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھے ۔جمہور کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھائی ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور باقی صحابہؓ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے۔
ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا نے بیان کیا : رسول ﷲ ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کی بیماری میں نماز پڑھائیں ، تو حضرت ابو بکرؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ، عروہؓ کا بیان ہے: پھر رسول ﷲ ﷺ کو اپنی طبیعت میں افاقہ محسوس ہوا،پس آپ حجرے سے نکلے پس اس وقت حضرت ابوبکرؓ لوگوں کونماز پڑھارہے تھے ، پھرجب حضرت ابوبکر ؓنے رسول اللہ ﷺکو دیکھا، تو وہ پیچھے ہٹ گئے، پس آپ نے اشارہ کیاکہ تم اسی طرح رہو ،پھر رسول ﷲ ﷺ حضرت ابوبکرؓکے پہلو میں بیٹھ گئے، پس حضرت ابوبکرؓ رسول ﷲ ﷺکی اقتدا ءمیں نماز ادا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابو بکرؓکی نماز کے ساتھ(ان کی تکبیرات پر) نماز پڑھ رہے تھے،(صحیح بخاری:683)‘‘۔ یعنی حضرت ابو بکر صدیق ؓ مکبّر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والا،بیٹھ کر پڑھنے والے کی اقتداء کرسکتاہے جبکہ وہ (نماز پڑھانے والا) رکوع وسجود کرسکتاہواور جو رکوع وسجود اشارے کے ساتھ کرتا ہو، اس کی اقتداء درست نہیں، فتاویٰ قاضی خان میںاسی طرح ہے اور کوزہ پشت ( کبڑے شخص)کی امامت درست ہے ،جیسے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی اقتداء درست ہے، ’’الذخیرۃ‘‘ اور’’خانیہ‘‘ میں اسی طرح ہے،(فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص:85)‘‘۔
علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں :ترجمہ: ’’اور کھڑے ہوکر پڑھنے والے کی نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے، جبکہ وہ رکوع وسجود کرتا ہو، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آخری نماز بیٹھ کر پڑھائی اور صحابہؓ آپ کی اقتداء میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے اور حضرتِ ابو بکرؓ مکبّر کے فرائض انجام دے رہے تھے(یعنی حضور ﷺکی تکبیراتِ انتقالات کو بہ آوازِ بلند تمام مقتدیوں تک پہنچارہے تھے)‘‘۔
علامہ شامی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں : ترجمہ:’’اور بیٹھ کر نماز پڑھانے والے کی اقتداء امام اعظم ابو حنیفہ ؒاور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک جائز ہے، اس میں امام محمدؒ کا اختلاف ہے اور بیٹھ کر پڑھانے والے امام کے ساتھ یہ قید لگائی گئی کہ وہ رکوع وسجود کرتا ہو ،یہ اس لیے کہ اگر وہ رکوع وسجود کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور اشارے سے رکوع وسجود کرتا ہو تو اس کی اقتداء میں نماز بالاتفاق جائز نہیں ہے ،امام محمدؒ کا اختلاف صرف فرض اور واجب میں ہے،نفل میں بالاتفاق اقتداء جائز ہے ،خواہ تراویح کی جماعت ہی کیوں نہ ہو ،صحیح ترین روایت کے مطابق تراویح کی جماعت بھی بیٹھ کر پڑھنے والے امام کے پیچھے بالاتفاق جائز ہے،جیساکہ علامہ زین الدین ابن نجیم نے ’’البحرالرائق‘‘ میں لکھا ہے،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختارجلد2ص:290،بیروت)‘‘۔
صحت مند شخص بیمار کی اقتدا ءمیں نماز پڑھے گا ،تو امام کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صحت مند شخص سے قیام کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی، علامہ غلام رسول سعیدی ؒ علامہ محمود بن احمد عینی حنفیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ اس قاعدے پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مقتدی امام کی نماز میں داخل ہوتو جو چیزاس پر پہلے فرض نہ ہو،توامام کی نماز میں داخل ہونے سے وہ چیز اس پر فرض ہوجاتی ہے ،جیسے مسافر مقیم امام کی اقتدا ءمیں ظہر کی نماز پڑھے تو پہلے اس پر چار رکعت نماز پڑھنی فرض نہیں تھی، مگر اب مقیم کی اقتداء کرنے کی وجہ سے اس پر بھی چار رکعت پڑھنا فرض ہوگئی، اس طرح جو چیز اس پر پہلے فرض تھی ،اب امام کی اقتداء سے وہ فرض اس سے ساقط نہیں ہوگا ،مثلاً : مقیم نے مسافر امام کی اقتداء میں ظہر کی نماز پڑھی ،تو پہلے اس پر چار رکعت نماز فرض تھی اور مسافر امام نے دورکعت پڑھنے کے بعد سلام پھیر دیا ،تو مقیم مقتدی سے دو رکعت پڑھنے کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی ، اسی طرح جب صحت مند شخص بیمار کی اقتداء میں نماز پڑھے گا ،تو امام کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صحت مند شخص سے قیام کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی ، (نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری، جلددوم،ص:569)‘‘۔
پس امام اگر بیٹھ کر نماز پڑھ رہاہے اور رکوع وسجود کرتاہے ،تو کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والا اُس کی اقتدا ءکرسکتا ہے اور اگر وہ رکوع وسجود اشارے سے کرتاہو توپھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے مقتدی کااس کی اقتدا ءمیں نماز پڑھنا درست نہیں ہے، پس اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھارہا ہے اورسجدہ کرسکتا ہے توکھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے مقتدی کا اس کی اقتدا ءمیں نماز پڑھنا درست ہے۔
قعدے میں درست ہیئت پر نہ بیٹھنا خلافِ سنّت ہے ،علامہ ابومحمد بن محمود بن احمد بدرالدین عینی ؒلکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور عذر کے بغیر چوکور (آلتی پالتی مار کر )نہ بیٹھے،(عذر کی مثال یہ ہے:)جیسے اُس کے پائوں میں درد ہو،کیونکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھنا ایک لحاظ سے بڑائی کا اظہار ہے اور نماز کی حالت عاجزی اور تضرّع کا تقاضا کرتی ہے اور مصنف نے اس کی علت یہ بیان کی کہ اس میں بیٹھنے کی سنت کا ترک ہے اور بیٹھنے کا سنّت طریقہ یہ ہے : بائیں پاؤں کو بچھائے اور اس پر بیٹھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھے اور انگلیوں کا رخ قبلے کی جانب ہو ،اس لیے کہ جب عذر ترکِ واجب کو مباح کردیتا ہے توسنت کے ترک کو بطریقِ اَولیٰ مباح کردے گا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز میں آلتی پالتی مار کر بیٹھے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں منع کیا ،حضرت ابن عمر ؓنے کہا: میں آپ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، انھوں نے فرمایا: میرے پائوں میں عذر ہے،(البنایہ شرح الھدایہ ،جلد2،ص:443)‘‘۔ (جاری ہے)