• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فضل الرحمٰن، حکومت سے تعاون کا عندیہ، فارم 45 ہو یا 47 کی اب یہی حکومت ہے، اسی سے کام لینا ہے، سربراہ جے یو آئی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ /ایجنسیاں)سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ فارم 45 کی ہویا فارم 47 کی اب یہی حکومت ہے ‘ اسی سے کام لینا ہے ‘قوم کے مسائل یہیں بحث سے حل ہوں گے‘اگر کل ریاست کو بھی کوئی ترمیم کرانا ہوگی تو بھی اسی ایوان سے ہی ہوگی‘ یہ ایوان اور لوگ ہوں گے تو کچھ ہوگا‘سیاسی قائدین اور پارلیمانی جماعتوں کو ملک کیلئے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں‘کے پی اور بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی‘ معاملات سیاستدانوں کے حوالے کیے جائیں‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفودبھیجے جائیں‘ملک کی کسی بھی خدمت کے لئے حاضر ہوں‘ سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کے لیے فیصل آباد کا گھنٹا گھر بن جانا مسئلے کا حل نہیں‘اپوزیشن لیڈر عمرایوب کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ‘پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم ہوش کے ناخن لیں‘ سردار اختر مینگل کے استعفے کو خدارا ہلکا نہ لیں، وہ ہم سے زیادہ محب وطن ہیں‘بلوچستان میں فیکٹ فائنڈنگ مشن جائے اور حالات دیکھے‘عمر ایوب کی بات کاجواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے رہنماء حنیف عباسی نے کہا کہ اپنی افواج کے خلاف اتنا زہر نہ اگلیں‘مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن کو اسرائیل، امریکا سے فنڈنگ آرہی ہے‘اپوزیشن لیڈر ہمارے افسراور جوانوں کی قربانیوں کا بھی ذکر کریں ۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو قومی اسمبلی میں بلوچستان اور خیبر پختونخواکی صورتحال پر بحث ہوئی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے‘ اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہے‘صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے ان کے حقوق کوتسلیم کریں‘سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جارہی ہے‘ سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کے لیے فیصل آباد کا گھنٹا گھر بن جانا یہ شاید ایک خواہش ہوسکتی ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان اورلکی مروت کا علاقہ مسلح قوتوں کے قبضہ میں ہے‘حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ کچھ علاقوں میں آج اسکولوں اور کالجوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جاسکتا‘پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا، یہاں تک صورتحال خراب ہوگئی ہے۔سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے، کچے کی صورتحال کو دیکھ کر پریشان ہیں‘پارلیمنٹ آگے بڑھے اوران سے گفتگو کی جائے‘جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو ہم جا کر وہاں صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں‘جبری گمشدگیاں ایک اہم مسئلہ ہے، اس پر بات چیت ہونی چاہیے‘ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں بتائیں کہ ان کے پیارے اس وقت کہاں ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ لوگ افواج پاکستان پر اعتبار کریں۔اختر مینگل نے استعفیٰ دیدیا‘ آپ واضح ہدایت دیں کہ یہ ایوان مضطرب ہے‘ اس صورتحال میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، ہم لڑیں گے، تنقید کریں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن ملک کو ضرورت پڑی تو اپنا کردار نبھائیں گے۔انہوں نے دریافت کیا کہ کیا حکومت کے پاس فیصلوں کا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس صلاحیت ہے فیصلہ کرنے کی یا اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود بات چیت کرے اور ملک کے اندر اضطراب کو ختم کرے، ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ ہمارے مفادات کی جنگ نہیں، عالمی قوت اس کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید