• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: اگر کوئی عورت اپنا مہر اپنی خوشی سے معاف کردے، شوہر کی زندگی میں یا شوہر کے مرنے کے بعد، تو کیا وہ مہر معاف ہوجاتا ہے؟ معاف کرنے کے بعد کیا وہ دوبارہ مطالبہ کرسکتی ہے ؟(منور احمد ،کراچی )

جواب: اگر بیوی نے اپنی خوشی ورضا سے شوہر کو حق مہر معاف کردیا، تو معاف ہوجاتا ہے، اب عورت دوبارہ مہر لینے کا مطالبہ نہیں کر سکتی ۔ علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور عورت کا کل یا بعض مہر کو شوہر سے ساقط (معاف ) کردینا صحیح ہے، شوہر اِسے قبول کرے یا نہ کرے اور رَد کردینے سے رَد ہوجائے گا ،جیسا کہ ’’البحر الرائق ‘‘ میں ہے ‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی اِس کی شرح میں لکھتے ہیں : ترجمہ:’’بیوی کے معاف کرنے کی قید اس لئے لگائی کہ اگر وہ نابالغہ ہے تو اس کے باپ کا مہر معاف کردینا صحیح نہیں ہے (یعنی باپ کو از خود یہ حق حاصل نہیں ہے ) اور اگر عورت بالغہ ہے(اور باپ نے اس کا مہر معاف کردیا ہے) تو اُس کی اجازت پر موقوف ہے اور اُس کی رضا مندی ضروری ہے (یعنی باپ کو یک طرفہ طور پر یہ حق حاصل نہیں ہے )، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد4،ص:182،داراحیاء التراث العربی ،بیروت)‘‘۔

اگر بیوی شوہر کو اپنا مہر معاف کردے ،تو یہ صحیح ہے خواہ شوہر قبول کرے یا نہ کرے، یہاں تک کہ اگر شوہر کی موت یا طلاقِ بائن کے بعد بھی عورت معاف کردے تو معاف ہوجائے گا۔ ہاں مہر معاف کرانے کے لئے شوہر بیوی پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈال سکتا، اور شوہر کا بیوی سے مہر معاف کرنے کا مطالبہ ناجائز ہے۔

حدیث پاک میں ہے : حضرت صُہیب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’جو شخص نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ عورت کو مہر میں سے کچھ نہ دے گا، توجس روز مرے گا ،زانی مرے گا (یہ کلمات زجر وتوبیخ اور وعید کے لئے ہیں)،(المعجم الکبیر:7302،بیروت) ‘‘۔