آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: میں نے اپنےایک دوست کو بدعت کےمتعلق حدیث بتائی جس میں بدعت کو ضلالت اور گمراہی کہا گیا تھا تو ان کا پوچھنا تھا کہ حضرت عمرؓ نے ایک صحیح روایت میں تراویح کی نمازکوایک امام کے پیچھے شروع کیا تو فرمایاکہ کتنی اچھی بدعت ہے، ان کا یہ کہنا تھاکہ اس سےبدعتِ حسنہ کاثبوت ملتاہے۔
میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس روایت میں بدعت کا لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے؟ برائے مہربانی کچھ تفصیل سےبیان فرما دیجیے ، کیوں کہ بدعت تو گمراہی ہے تو پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر اس لفظ کا انتخاب کیوں کر کیا ؟
جواب: عربی زبان میں ’’بدعت‘‘ ہرنئی چیز کو کہتےہیں، اب اگر اس نو ایجاد چیز کی شریعت میں کوئی اصل ملتی ہے تواسے کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں، جو قابلِ عمل ہے اور اگر شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں تواسے بدعتِ سیّئہ کہتے ہیں جوواجب الترک ہے۔
حضرت عمرؓکےدور سے پہلے لوگ تراویح کی ایک سے زائد جماعتیں کراتے تھے، حضرت عمرؓ نے ان مختلف جماعتوں کو ختم کرکے سب کو ایک امام کی اقتدا میں تراویح پڑھنے کا حکم دیا، ایک امام کی اقتداء میں سب کو جمع کرنا یہ ایک نئی چیز تھی جو اس سے پہلے مسلمانوں میں رائج نہیں تھی، اس لیے اسے حضرت عمرؓنے"نعمت البدعۃ ھٰذہ" کہا، یعنی یہ نئی چیز/طریقہ اچھاہے، مراد یہ تھی کہ ایک متفقہ امام کی اقتداء میں تراویح کی ادائیگی ایک نیاکام ہے جو کہ بہت عمدہ ہے۔ اس روایت میں بدعت کا لفظ اپنے اسی لغوی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
نیز یہ کہ " نعمت البدعۃ ھٰذہ" کا مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ پہلے الگ الگ امام کی اقتداء میں تراویح کی نماز پڑھتے تھے، حضرت عمرؓ نے سب کو ایک امام کے پیچھے کردیا تو بعض حضرات نے اسے بدعت سے تعبیر کیا، تو حضرت عمرؓنے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو لوگ ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کو بدعت کہتے ہیں ،وہ غلط بات ہے، یہ بدعت نہیں ہے، بلکہ شان دار کام ہے، تو اس عمل کو لوگوں کے خیال کے مطابق "بدعت" کہا ہے، اور "نعم" سے اس کی تردید کی ہے۔