• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریٹائرڈ، پنشنرز کے مشاغل اور مسائل

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
لندن اگر آپ کسی گورنمنٹ ملازم سے یہ راز جاننے کی کوشش کریں کہ آپ نے اس سرکاری ملازمت کو کیوں ترجیح دی؟ تو اس کا جواب کئی ترجیحات پر مشتمل ہوگا۔ ایک تو یہ کہ لوگ وقت کے پابند ہو جاتے ہیں، دوسرا یہ کہ کام کیلئے وقت مقرر ہے اور ہم اپنے آشیانوں میں، ٹھکانوں میں شام ڈھلنے سے پہلے چلے جاتے ہیں تاکہ خاندان کیساتھ بھی تھوڑا وقت گزار لیں۔ پھر یہ کہ سرکاری ملازمین کو ملازمت کی مدت پوری ہونے کے بعد جو پنشن ملتی ہے وہ انکے بڑھاپے کی کمائی ہوتی ہے، جس سے ان کی گزربسر ہوتی ہے اور کسی حد تک وہ انہیں کسی کی محتاجی سے بچاتی ہے۔ پھر دوران ملازمت انہیں بگار و تنخواہ سے علاوہ فنڈز بھی ملتے ہیں جو ان کی بسر اوقات میں نعمت عظمیٰ سے کم نہیں۔اب معاملہ جہاں تک ان کی ریٹائرڈ زندگی کا ہے تو اصل انکی زندگی کا نچوڑ ان کی ملازمت کے بعد کا وقت ہوتا ہے کہ اسے کیسے بروئے کار لایا جائے؟ ویسے تو کام کرتے لوگوں کا، ان کے ریٹائرمنٹ اور پنشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ زندگی کا محور و منبع ان کی بعد کی سرگرمیاں اور وقت گزارنے کا وہ مشغلہ ہے کہ جس کے بغیر وہ زندگی گزارنا محال و مشکل سمجھتے ہیں تو ایشین ممالک کے بعض ریٹائرڈ لوگ اپنی پنشن پانے کی تگ و دو میں اپنی ریٹائرمنٹ کا وقت گزار دیتے ہیں۔ انہیں لمبی لمبی قطاروں کا بہت سامنا رہتا ہے پھر یہ کہ بے چارے دھکم پیل کے بعد جب بنک میں یا کسی پوسٹ آفس جاتے ہیں تو وہاں کئی ایک مسائل اور قدغنیں انتظار کرتی ہیں کہ ابھی آپ کی پنشن کی رقم نہیں پہنچی، فلاں دن آیئے ، فلاں وقت آیئے تو ہمارے ریٹائرڈ لوگوں کی بعد کی زندگی تو ایسی ہوتی ہے۔اب ہمارے یہاں یورپ کے بزرگوں جیسی خوبصورت زندگی تو ہے نہیں کہ آرام سے ان کی پنشن بغیر کسی حیل و حجت کے بڑے آسان پیمانے پر ان کے اکائونٹ میں آجاتے ہیں جنہیں وہ برے رسان سے خرچ کرتے ہیں بلکہ اسی رقم سے وہ چیرٹی کی مد میں بھی کچھ رقم ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے ریٹائرڈ لوگ ریٹائر ہونے کے بعد اسقدر مسائل کا شکار ہوتے ہیں کہ بھیک میں رقم دینے کی بجائے وہ خود بھیک کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ سیروتفریح تو کیا کریں گے یہ بے چارے تو دال روٹی کے مسائل اور گھریلو بجلی پانی اور دیگر بلز کے جھنجھٹ سے ہی باہر نہیں نکل پاتے۔اول تو بہت سے لوگ پنشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے بوکھلا جاتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی کسی مسخرہ پن سے کم نہیں لگتی بہت سے ریٹائرڈ لوگوں کو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہایت دکھی بھی ہوتے دیکھا کہ جن کی جوان بچیاں باپ کی پنشن کے انتظار تک اپنے آپ کو دلہن کے روپ میں نہیں دیکھ سکتیں اور جب تک پنشن اور ریٹائرمنٹ کا وقت آتا ہے تب تک ان کے بالوں میں چاندی بھر جاتی ہے یا پھر فکرات نے ان کے والد کو لاغر کر دیا ہوتا ہے۔ بیٹی کوبیاہ کر جہیز میں کچھ دینے دلانے کی رقم سے ان کی دوائیاں آنے لگتی ہیں۔ بیٹی کے سنہرے خواب دھندلانے لگتے ہیں، باپ کی بیماری کی فکرات اسے مزید بوڑھا کرنے لگتی ہے اور والد اسی فکر میں گھل گھل کر ایک دن ختم ہو جاتے ہیں، پھر کہاں کی سکون بھری زندگی اور کہاں اولاد کی خوشیاں دیکھنے کی تمنا!!! یہ سب دھرا رہ جاتا ہے اور وہ ریٹائرڈ باپ انہیں مخمصوں میں اپنی زندگی کی بازی ہار دیتا ہے۔ پھر وہی بیٹی اپنی باقی زندگی کی فکر میں گھل جاتی ہے کہ اب گزربسر کیسے ہوگی۔ وہی پنشن اور خوشیوں کی رقم اب اسکے بعد کی گزر اوقات میں کام آئے گی ورنہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کیسے کھینچے گی، اس کی اگر اچھے گھر میں قسمت سے شادی ہو جائے تو اچھی بات ہے ورنہ وہ غیر شادی شدہ رہ کر اپنے والد کی پنشن پر زندگی گزار سکتی ہے کیونکہ والد کی پنشن کی رقم غیر شادی شدہ بچوں کے کام آتی ہے، ان کی حیثیت بدلنے تک! اب آتے ہیں بہت سے لوگوں کے مشاغل پر، کچھ لوگ بڑھاپے میں تیراکی سیکھتے ہین، باغبانی کرتے ہیں، سیروسیاحت میں وقت گزارتے ہیں اور کچھ لوگ تو شاعری بھی کرنے لگتے ہیں، جن کا موضوع پوسٹ آفس سے پنشن کے پیسے رسیو کرنے سے لیکر ہنٹربیف کے گوشت خریدنے تک ہوتے ہیں۔ ہنٹربیف کھانا شائد ریٹائرڈ لوگوں کی اولین خواہشات میں سے ہو۔ کچھ ریٹائرڈ خود کو اس عمر میں پرانے عشق کے قصے لیکر جوان سمجھنے لگتے ہیں۔
نیلم احمد نے اسی سلسلے میں کہا کہ
قومی بچت کے دفتر آج کے بڈھے جاتے ہیں
اپنا "Monthly" خرچ وہاں سے لاتے ہیں
ہم بھی گئے تھے لینے کل کچھ سرمایہ
وہیں وہ ظالم ہم سے آٹکرایا
گنجا تھااور ہاتھ میں اس کے سوٹی تھی
پہلے سے تو میں بھی خاصی موٹی تھی
چہرے پر ہم دونوں ہی کے جھریاں تھیں
دیکھ کے چلتیں دل پر سو سو چھریاں تھیں
درد سے میرا گھٹنا بالکل کھڑک گیا
وہ سمجھا اسے دیکھ میرا دل دھڑک گیا
تو ایسا حال بھی ہو جاتا ہے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کہ بنکوں میں ملاقات ہوتی ہے۔
یورپ سے سے مزید