لندن (پی اے) وٹفورڈ کی ایک 16سالہ لڑکی پریشا ٹیپرے نے چیرٹی کےلئے رقم جمع کرنے کیلئے 4 ستمبر کو مسلسل 11گھنٹے اور 48منٹ میں ڈوور سے کیپ گرس تک21میل کی تیراکی کے ذریعے انگلش چینل عبور کرلیا۔ پریشا ٹیپرے نے وٹفورڈ سوئمنگ کلب کی جانب سے تیراکی میں حصہ لیا۔ انگلش چینل عبور کرنے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے پریشا نے کہا کہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا ہے کہ میں نے انگلش چینل عبور کرلیا ہے لیکن میں اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ یہ کارنامہ انجام دینے کیلئے 12 سال کی عمر سے مشق اور تیاری کر رہی تھیں، یعنی میں نے اس کی تیاری میں اپنی چوتھائی عمر صرف کردی۔ چینل عبور کرنے سے پہلے بھی وہ تیراکی کے بہت سے مقابلوں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اندھیرے میں تیراکی کا تھا کیونکہ انھیں اندھیرے میں تیراکی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ تیراکی کے ابتدائی 2 گھنٹے تک پانی میں تلاطم تھا اور تاریکی تھی، یہ وقت غالباً میری تیراکی کا انتہائی خراب ترین وقت تھا لیکن میں نے اس پر قابو پالیا، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ پانی گرم تھا اور اس کا درجہ حرارت 19 درجہ سینٹی گریڈ تھا لیکن پانی پرسکون تھا۔ پریشا نے بتایا کہ اس نے اپنی تیراکی کی تربیت اور تعلیم کے درمیان توازن برقرار رکھا ہے اور وہ GCSE کی تیاری کررہی ہے۔ پریشا کا کہنا ہے کہ نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو تیراکی جیسے کھیلوں میں حصہ لینا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ میں کچھ بڑا کرسکتی ہوں۔ میں دوسروں سے کچھ مختلف کرنا چاہتی تھی، میں خود اپنے آپ کو چیلنج کرنا چاہتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ تیراکی جیسے کھیلوں کے مقابلے میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں، جن میں ایشیائی لڑکیاں شامل ہیں، بہت زیادہ نہیں ہیں، میں ان سے کہتی ہوں کہ وہ روایتی کھیلوں کو چھوڑ کر اس میں حصہ لیں۔ تیراکی ان کی ذہنی صحت کیلئے بھی بہت اچھی چیز ہے۔ انھوں نے کہا کہ تیراکی کیلئے میں نے اپنے ذہن کو بالکل خالی کرلیا تھا اور تیراکی کے علاوہ کوئی سوچ میرے ذہن میں نہیں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اپنے GCSE کے امتحانات کے دوران بھی میں نہر پر جاتی تھی، تیراکی کیلئے نہیں بلکہ دماغی سکون کیلئے، وہاں جا کر میں کچھ اور نہیں سوچتی تھی، میں وہاں اسکول، دوستوں اور امتحانات تمام فکروں سے آزاد ہوتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں ہر ایک کی کوئی ایسی جگہ ہونی چاہئے، جہاں جا کر وہ خود کو تمام فکروں سے آزاد تصور کرے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اس بات پر واقعی خوشی ہے کہ وہ برطانیہ اور بھارت میں بچوں میں بھوک اور فوڈ پاورٹی ختم کرنے کے مشن پر کام کرنے والی چیرٹی اکشیا پٹرا یوکے کیلئے 3,700 پونڈ کے عطیات جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ اگلا معرکہ کون سا ہوگا لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں جدوجہد جاری رکھوں گی، ابھی یہ تو صرف ابتدا ہے۔