اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ماضی کی نسبت شفافیت آگئی ہے،پہلے بنچ دیکھ کربتادیا جاتا تھا فیصلہ کیا ہوگا،اب مجھے پتہ نہیں ہوتا،سسٹم میں بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کئے، سپریم کورٹ میں 15ہزار سے زائد کیسز نمٹائے،ہر جج کا کچھ رجحان ہوتا ہے اب کسی کی قسمت کیس کہاں لگتاہے، آزادی اظہار رائے پر کبھی قدغن نہیں لگائی ،پارلیمان قانون بناتی ہے ہماراکام تشریح کرنا ، قانون کسی آئینی شق کے خلاف ہوتو کالعدم قراردے سکتے ہیں، اپنی مدت ملازمت میں کسی قسم کی توسیع نہیں چاہتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب اور میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی۔صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثناء اللہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں؟اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ رانا ثناء اللہ کو میرے سامنے لے آئیں، ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل موجود تھے، اس میٹنگ میں رانا ثناء اللہ موجود نہیں تھے، بتایا گیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں، میں نے کہا کہ باقیوں کی کر دیں میں صرف اپنے لئے قبول نہیں کروں گا، مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ کل میں زندہ رہوں گا بھی یا نہیں۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائرعیسیٰ نے کہا کہ مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائیگا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔