• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ملک کے اکثر علاقوں میں اور اب قصبوں اور دیہی علاقوں میں بھی ’’فاریکس ٹریڈنگ ‘‘ کا کاروبار جاری ہے ، مزید مختلف ناموں (مثلاً : کرپٹو کرنسی ،21-39کا گیم) سے یہ کاروبار کیا جارہا ہے ، اس کام کے کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ کاروبار جائز ہے ، جن علماء نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیاہے اور اسے سود قرار دیاہے ،انھیں اس بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں ، بعض لوگ یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے مرشد نے اجازت دی ہے ، آپ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں ،( محمد صحبت خان کوہاٹی ، کراچی)

جواب: بین الاقوامی سطح پر فاریکس ٹریڈنگ کے عنوان سے رائج کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی،کپاس، گندم، گیس، خام تیل،جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔فاریکس ٹریڈنگ کے بارے میں حاصل شدہ معلومات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے :

(۱)فاریکس کمپنی کے ذریعے ہونے والی مبیع (خریدی ہوئی شے) کا وجود قطعی اور یقینی نہیں ہے۔

(۲)’’آن لائن ‘‘خریدی گئی چیز کے مقام اور مقدار کا تعین نہیں ہے۔

(۳)خریدی اور فروخت کی جانے والی اشیاء بائع ومُشتری کے قبضے میں نہیں ہیں۔

(۴) کرنسی کے تبادلے میں دونوں اطراف میں کسی بھی جانب سے قبضہ نہیں پایاجاتا،جس کے سبب قرض کی قرض سے بیع کی خرابی لازم آتی ہے، اسے فقہی اصطلاح میں ’’بَیْعُ الْکَالِیْ بِالْکَالِی ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اگر اِس کاروبار ی سلسلے میں کسی ایسی شے کی خریدوفروخت کی جارہی ہو، جس کا حقیقی وجود پایا جاتا ہو ،تو یہاں بھی یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ فاریکس ٹریڈنگ میں وہ شے اپنی جگہ سے ہلتی بھی نہیں اور بار بار فروخت ہورہی ہوتی ہے ،جو ’’بیع قبل القبض ‘‘کی قباحت کی حامل ہے، حدیثِ پاک میں ہے : ترجمہ:’’ جو چیز تمہارے پاس یعنی تمہارے قبضے میں نہ ہو، اُس کی بیع نہ کرو،(سنن ابو داؤد:3497)‘‘۔

فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعے ہونے والے کاروبار میں مبیع (خریدی ہوئی شے) کا وجود قطعی اور یقینی طور پر ہے یا نہیں ،خریدار اِس صورت سے مکمل واقف نہیں ہوتا بلکہ انٹر نیٹ پر وہ اشیاء کسی کوڈ کے ذریعے ظاہر کی جارہی ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ خریداروں میں سے کسی کو بھی مَبیع (Sold Item)کے دیکھنے کی نوبت نہیں آتی ،علامہ محمد خالد الاتاسی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ عقدِ(بیع) کی چھ شرائط ہیں: مبیع کا موجود ہونا ،مالِ مُتقوّم(یعنی قیمت رکھنے والا مال یا نفع بخش مال) ہونا، مملوک ہونا ،اگر بائع اُس چیز کو اپنے لیے فروخت کرتاہے ،تو اُس چیز کا بائع کی ملک میں ہونا ضروری ہے اور اُس چیز کا مقدورُالتّسلیم ہونا یعنی وہ شے قبضے میں دیے جانے کے قابل ہو،(شرح المجلّۃ ، جلد1،ص:87)‘‘ ۔

مالی معاملات میں جہاں کہیں اشیاء یا خدمات کا حقیقی وجود نہ ہو اور محض کسی فرضی شے کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی جارہی ہو ،تو ایسے معاملات کو قِمار (جوا) سے مشابہت کے سبب ناجائز قرار دیاجاتا ہے ، اسی طرح جس معاملہ میں نفع نقصان کا مدار کسی موہوم اور متردّد(غیر یقینی) واقعہ پر ہو ، وہ بھی قِمار میں داخل ہے۔ 

فاریکس کمپنی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ یہاں کسی غیر یقینی اور فرضی مبیع کا نام لے کر سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور نفع ونقصان کا مَدار قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر ہوتا ہے، جو ایک موہوم اور متردّد یعنی غیر یقینی صورتِ حال ہے، اس لیے اس کاروبار کو بھی قِمار کے مشابہ قرار دے کر حرام قرار دیاجائے گا، قمار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’اے ایمان والو! شراب ، جوا اوربتوں کے پاس نصب شدہ پتھر اورفال کے تیر محض ناپاک ،شیطانی کاموں سے ہیں ،سوتم ان سے اجتناب کرو تاکہ تم کامیاب ہو، (سورۃالمائدہ:90)‘‘ ۔

فاریکس ٹریڈنگ میں مختلف ممالک کی کرنسی کے تبادلے کے وقت کسی بھی جانب سے کرنسی پر مکمل قبضہ نہیں پایاجاتا ، شرعی اصول یہ ہے کہ مختلف ممالک کی کرنسی کے تبادلے کے لیے عقد کے وقت دونوں میں سے ایک پر قبضہ لازم ہے، کیونکہ قرض کی قرض سے بیع ناجائز ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:ترجمہ:’’نبی اکرم ﷺ نے قرض کی قرض سے بیع کو منع فرمایا،(سُننُ الْکُبْریٰ لِلْبَیْہَقِی:6204،مُؤَطّاامام مالک : 1296)‘‘۔جبکہ فاریکس میں کرنسی کی خریدوفروخت کے وقت کسی جانب سے اُس پر قبضہ نہیں پایاجاتا،اس لیے یہ ناجائز ہے ، واضح رہے کہ دَین کسی حق یا شے کے عوض واجب الوصول رقم کو کہتے ہیں ، جیسے دَینِ مہر ۔

شمس الائمہ علامہ سرخسی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس لیے کہ یہ عقد ثمن کا ثمن سے مبادلہ ہے اور عقد کے نتیجے میں ثمن بطور دَین ثابت ہوتا ہے اور شریعت کی رُوسے دَین کا دَین سے مبادلہ حرام ہے ،کیونکہ نبی ﷺ نے قرض کی قرض سے بیع کو منع فرمایا ہے، پس جو چیز معین طورپر حاصل ہوتی ہے ،وہ قبضہ ہے، جو اس عقد میں ضروری ہے ،(اَلْمَبْسُوط لِلسَّرَخْسِی ، جلد14،ص:3)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ فاریکس کے نام سے معروف آن لائن کاروبارمیں درج ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں: (۱) قمار (سٹہ) (۲)غیر موجود اشیاء کی بیع(۳) بیع قبلَ القبض (قبضے سے پہلے آگے فروخت کردینا)(۴)قرض کے بدلے قرض کی بیع (۵) سودی معاملات پر مشمل ہوناان اسباب کی وجہ سے فاریکس ٹریڈنگ حرام ہے ،اس میں سرمایہ کاری شرعاً جائز نہیں ہے ۔کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی یا بِٹ کوائن یہ تمام محض فرضی اور تخیُّلاتی ہیں ، درج بالا خرابیوں کے ساتھ ان سب کا یہی حکم ہے۔ 

جو لوگ اپنی دانست میں یہ خیال کرتے ہیں کہ علماء کو اس بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں، یہ اُن کی خام خیالی ہے ، نیز شریعت سب پر حاکم ہے، کسی پیر کا ذاتی فعل یا فرمان جس کی تائید یا ثبوت شرعی دلیل سے نہ ہو، شریعت میں حُجّت نہیں ہے اورکوئی مرشد یا پیر اللہ تعالیٰ کے حرام کیے ہوئے کو حلال نہیں کرسکتا ۔ (واللہ اعلم بالصواب)

اقراء سے مزید