انصار عباسی
اسلام آباد :… الیکشن کمیشن آف پاکستان خصوصی نشستوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے 12؍ جولائی کے مختصر حکم نامے سے متعلق کمیشن کے سوالات کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ 8؍ ججز کی وضاحت پر پریشان ہے۔ کمیشن ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا ہے کہ کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے لہٰذا کسی کے دبائو میں نہیں آئے گا۔ ان ذرائع نے الیکشن کمیشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کی وضاحت کے لہجے اور مدت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک آئینی ادارے کے ساتھ ایسا سلوک انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ الیکشن کمیشن نے بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کا چیئرمین تسلیم کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ اب تک الیکشن کمیشن میں زیر غور ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، پی ٹی آئی نے بار بار تاخیری حربے استعمال کیے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر اپنا مختصر فیصلہ 12 جولائی 2024 کو سنایا تھا۔ اس کے جواب میں، الیکشن کمیشن نے قانونی مدت کے اندر، یعنی 25 جولائی 2024 کو، اپنی سی ایم اے (CMA) دائر کی تھی۔ تاہم تقریباً 2 ماہ کے بعد، 14 ستمبر 2024 کو سپریم کورٹ نے سی ایم اے پر حکم جاری کیا۔الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے کسی قسم کی تاخیر کا ذمہ دار نہیں ہے۔الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور وہ اپنے خلاف کسی بھی قسم کی دھمکی کو قبول نہیں کرے گا۔ آئینی اداروں کے ساتھ اس طرح کا برتائو قطعی طور پر نامناسب ہے۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ 12؍ جولائی کے فیصلے پر عمل کے معاملے میں کمیشن تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے، اور ساتھ ہی پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا گیا۔ 8؍ ججوں کی وضاحت میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا ہے کہ اگر اس نے اپنی قانونی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو سنگین نتائج ہوں گے۔ ججز نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ عدالت کے سامنے ایک ساتھ رکھے گئے ریکارڈ اور مختصر حکم کی روشنی میں اس پر غور کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ کمیشن کی طرف سے جو وضاحت طلب کی گئی ہے، وہ جان بوجھ کر پیدا کردہ تاخیری حربے کے سوا کچھ نہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے سیکرٹری عمر حامد خان کے توسط سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بارے میں 12؍ جولائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کرنے کیلئے درخواست دی تھی۔ مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے سابق حکمران جماعت کو مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے 12؍ جولائی کے فیصلے کے بعد، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ نے عمران خان کی قائم کردہ پارٹی سے وفاداری کے حلف نامے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے تھے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ریکارڈ کی نشاندہی کی جس میں بیرسٹر گوہر علی خان کو پارٹی چیئرمین کے طور پر اختیار نہیں دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ’’غیر مجاز شخص‘‘ کی جانب سے پارٹی کیلئے ’’درست منتخب تنظیمی عہدوں‘‘ کی غیر موجودگی میں ان ارکان پارلیمنٹ کے حلف ناموں کی تصدیق پر سوالیہ نشان پیدا ہوگیا تھا۔