• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی ترامیم، حکومت دفاعی پوزیشن پر، رات میں ڈاکا یا چوری مقصود نہیں، آئینی عدالتوں کا قیام چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے جوڑا گیا، وزیر قانون

اسلام آباد(ایجنسیاں)عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کے معاملے پر حکومت دفاعی پوزیشن پر آگئی ‘ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم سے رات کے اندھیرے میں کوئی ڈاکہ ڈالنا یا چوری کرنا مقصود نہیں‘آئینی عدالتوں کے قیام کوچیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے جوڑا گیا‘آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں‘چیف جسٹس نے نہیں پارلیمان نے ملک کی سمت کا تعین کرنا ہے‘وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ مکمل اتفاق رائے کے بعد آئینی ترامیم کو ایوان میں پیش کیا جائیگاجبکہ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو ربر اسٹمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ‘رات کی تاریکی میں ذلت سے قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے موت بہتر ہے‘ہم اس کے خلاف مزاحمت کریں گےاور کوئی سمجھتا ہے کہ ہم دھونس اور دھمکیوں سے ڈر جائیں گے تو وہ سوچ لے ہم لڑیں گے۔تفصیلات کے مطابق پیرکوقومی اسمبلی میں مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے پالیسی بیان میں وزیرقانون نے کہا کہ ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ نہیں گیا تو اس کو ایوان میں کیسا لایا جا سکتا ہے‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اس حوالے سے پہلے مشاورت ہوئی ‘ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان آگے بڑھے‘موجودہ حالات میں کوئی بھی آئینی عدالت کے قیام کی ضرورت سے اختلاف نہیں کر سکتا‘قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے‘ جس بارکونسل میں کہیں گے، یہ مجوزہ پیکج لے کرجانے کیلئے تیار ہوں۔سیاستدان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اختیار کسی اور کی جھولی میں ڈالتے آئے ہیں جبکہ چیف جسٹس کو طے نہیں کرنا کہ ملک کیسے چلے گا بلکہ یہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔آئینی عدالتوں کے قیام کوچیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے جوڑا گیا اور یہ کہا جارہا ہے کہ عدالتوں پر حملہ ہوا ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے مجوزہ آئینی عدالت کی ہیئت کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سات یا آٹھ ججز کی تجویز ہے جس میں وفاق کی ہر اکائی کی نمائندگی ہو، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پا س ہے جس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے‘اسی طرح آرٹیکل 199میں ہائی کورٹ کے مقدمات پر اپیلوں کی سماعت بھی آئینی عدالت میں ہونی چاہئے۔ ہم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے سیاسی معاملات حل کرنے کیلئے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں، اپنی نادانیوں کی وجہ سے ہم نے اپنا اختیار دیوار کے اس پار دیدیا ہے، یہ اختیار قانون سازی کے ذریعے ہی واپس آسکتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید